امریکی صدارتی انتخابات اور پاکستانی نژاد نوجوان

US Presidential Candidates Court Youth Vote

امریکہ میں اکثر مسلمان نوجوانوں کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ پرحالیہ اسلام مخالف فلم کی وجہ سے مسلمان ووٹروں میں اوبامہ کی شہرت متاثر ہو سکتی ہے، مگر صدارتی انتخاب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا
چار سال قبل، صدر براک اوباما کی فتح کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نوجوانوں نے انہیں بھاری تعداد میں ووٹ دیے تھے ۔ لیکن اِس بار اُن کی ڈیموکریٹک پارٹی کو نوجوان ووٹروں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے ۔

کچھ نوجوان شہری اگر ایک جانب ملک میں اقتصادی مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں تو کچھ حالیہ ریلیز ہونے والی اسلام ٕ مخالف فلم پر برہم ہیں۔مگر اِس تمام صورتحال کےباوجود، مسلمان نوجوان امریکی ڈیموکریٹس کو فیورٹ قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسٹر اوبامہ کو ایک اور موقع دینے کی ضرورت ہے، کیو نکہ راتو رات تبدیلی لاناممکن نہیں۔

حالیہ اسلام مخالف فلم کی وجہ سےمسلم دنیا بھر میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے اور بڑے پیمانے پر امریکہ ٕمخالف جذبات نے جنم لیا ۔تا ہم، امریکہ میں اکثر مسلمان نوجوانوں کا خیال ہے کہ اِس ویڈیو کی وجہ سے مسلمان ووٹروں میں اوبامہ کی شہرت متاثر ہو سکتی ہے، مگر صدارتی انتخاب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اس سلسلے میں ’وائس آف امریکہ‘نے کچھ پاکستانی نژاد امریکی نوجوانوں سے گفتگو کی۔

صدف شیروانی واشنگٹن ڈی سی کی جارج میسن یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہی ہیں ۔

اُنھوں نے سنہ 2008 میں مسٹر اوبامہ کو ووٹ دیا تھا اور وہ اب بھی انہیں ووٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔وہ کہتی ہیں مسٹر اوبامہ کو اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مزید وقت درکا ر ہے۔


آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستانی نژاد نوجوان اور امریکی صدارتی انتخابات


جاوید آروبی کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ یہاں ورجینیا میں ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔اُنھیں موجودہ اقتصادی صورتحال سے متعلق تشویش نہیں ہے مگر وہ مسلمانوں اور اوبامہ حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی بد اعتمادی سے متعلق پریشان ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے نہ صرف اوبامہ بلکہ رومنی کی شہرت بھی متاثر ہو سکتی ہے اور لوگ اس کے بارے میں ضرور سوچیں گے۔

خالدنور ایک سوڈانی امریکی ہیں وہ ناردرن ورجینیا کمیونٹی کالج میں بزنس ایڈمینسٹریشن کے طالب علم ہیں۔انہوں نے بھی 2008ء میں صدر اوبامہ کو ووٹ دیا تھا،مگر اس با راُنھوں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ خالد کو ملک کی اقتصادی صورت حال اور بے روزگاری سے متعلق تشویش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی اُن کا موجودہ تعلیمی دور ختم ہو نے والا ہے، مگر اُنھیں توقع نہیں ہے کہ اُنھیں کوئی معقو ل ملازمت ملے گی۔

آیڈم عثمان جارج واشنگٹن یو نیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کے طالب علم ہیں۔ وہ اس بار بھی صدر اوبامہ کو ووٹ دینگے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ صدر کو مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں اگرچہ انہیں امریکی مفاد کو مد نظر رکھنا ہے، مگر ان سارے معاملات میں انسانیت کا پہلو بھی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ اُنھیں ایک موقع اور ملے۔

امریکہ کے مسلمان گھرانوں میں والدین سیاسی انتخاب میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے والدین جنہوں نے امریکہ میں ہوش سنبھالا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے مسٹر اوبامہ کو ووٹ دیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مسٹر اوبامہ کا خاندانی پس منظر کسی حد تک اسلامی رہا ہے ۔اُنھوں نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ ایک اسلامی ملک انڈونیشیا میں گذارا، اس لیے وہ مسلم معاشرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔

بہرحال، امریکہ کے صدارتی انتخابات میں لمحہ بہ لمحہ صورت حال تبدیل ہونے کے امکانات بھی موجود رہتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی تجزیہ درست اور حتمی نہیں ہوتا ہے۔