جموں و کشمیر کی صورت حال پر چین کی درخواست پر بلائے گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بعد پاکستان اور بھارت کے ذرائع ابلاغ میں اس اجلاس کو ایک عظیم کامیابی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
بھارت کے زیر انتطام کشمیر کے معاملے پر لگ بھگ 5 دہائیوں بعد 16 اگست کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا لیکن اس اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔
پاکستان نے اس اجلاس کے انعقاد کو ہی عظیم ترین کامیابی گردانا جبکہ بھارت نے مؤقف اختیار کیا کہ دنیا نے جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 میں تبدیلی کے بھارتی فیصلے کو داخلی معاملہ تسلیم کرلیا ہے۔
مبصرین کے نزدیک سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی طلبی اور مشترکہ اعلامیہ یا جموں و کشمیر سے متعلق اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیے بغیر اجلاس کے اختتام کی وجہ سے دونوں ممالک کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات دیے جارہے ہیں۔
بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے پاکستان مخالف اشتعال انگیز بیانات دیے جارہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے بھی بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیے جانے کے پیغامات آرہے ہیں۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس اجلاس سے ثابت ہوگیا کہ آئین کے آرٹیکل 370 میں تبدیلی بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ کیا اس اجلاس سے یہ ثابت ہوتا ہے؟۔
اس سوال کے جواب بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ باکل ثابت نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ہمیں نہیں پتہ کہ اس اجلاس میں آرٹیکل 370 پر بحث ہوئی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ہم چین کے بیان کو صحیح مان لیں۔ جس میں چین کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں ریفرنس اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیر کے تصفیہ طلب تنازع سے متعلق تھا۔ تو بھارت کیسے کہہ سکتا ہے کہ سلامتی کونسل نے اس کے حالیہ اقدامات کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہوتا تو 15 ممالک کے سفارت کار اس تنازع پر کیوں بند کمرہ اجلاس میں شریک ہوتے۔
بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کو داخلی معاملہ سمجھنے سے متعلق امریکی ادارے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایشیا سینٹر کے ایسوسی ایٹ نائب صدر معید یوسف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ آرٹیکل 370 میں تبدیلی کا نہیں بلکہ اس کی ذیلی شق 35-اے کا ہے۔
اُن کے بقول بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کی ذیلی شق 35-اے کے مطابق جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب تنازع تھا۔
معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے پر اعتراض ہے۔ کیوں کہ اس معاملے پر سلامتی کونسل کی قرردادیں موجود ہیں۔ جو اس تقسیم کو روکتی ہیں۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ انسانی جان کا جو معاملہ ہے۔ اس کو روکنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔
کیا سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا ہی پاکستان کی کامیابی ہے؟
اس سوال کے جواب میں انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایشیا سینٹر کے ایسوسی ایٹ نائب صدر معید یوسف کہتے ہیں اس اجلاس کا بظاہر مقصد یہ لگتا ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ تنازع کشمیر ایک بین الاقوامی تصفیہ طلب مسئلہ ہے اور بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 میں تبدیلی کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادیں اپنی جگہ موجود ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس کا ہو جانا پاکستان کے لیے علامتی کامیابی ہے۔ اس اجلاس سے بھارت کے دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے اس آرٹیکل میں جو تبدیلی کی گئی ہے۔ اس سے ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا پرا ہے۔
سلامتی کونسل کا اعلامیہ جاری نا کرنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
اس سوال پر معید یوسف کہتے ہیں کہ دنیا میں تعلقات مفادات اور طاقت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سلامتی کونسل کے کچھ مستقل اراکان کے مفادات بھارت کی طرف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔
معید یوسف کے بقول بھارت ایک بڑی منڈی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ اگر پاکستان کے حق میں زیادہ ممالک ہوتے تو اعلامیہ جاری ہو جاتا۔
کیا بھارت کا بڑی منڈی ہونا ہی سلامتی کونسل کا اعلامیہ جاری نہ کرنے کی وجہ بنا؟
اس سوال کے جواب میں بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ یہ بالکل 'لغو' بات ہے۔ اگر ہم اقوام متحدہ کے بند کمرہ اجلاس کے قواعد دیکھیں تو اس کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوتا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ یہ اجلاس بند کمرہ ہوتا ہے۔ اس لیے اجلاس میں شریک کسی بھی ملک کے سفیر کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کسی بھی ملک کے توسط سے کوئی بیان دے۔
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بعد مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگلے ماہ ستمبر میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں ممکنہ طور پر پاکستان کی طرف سے تنازع کشمیر کو اٹھایا جائے گا اور کشمیر کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر زیر بحث آئے گا۔