Your browser doesn’t support HTML5
عمر چیمہ ’دی نیوز‘ کے انویسٹی گیٹو رپورٹر ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کا صحافی ہونا آسان کام نہیں۔ ہر اسٹوری کے ساتھ کئی دشمن پیدا ہوجاتے ہیں۔ ہر بااثر شخص خفا ہو جاتا ہے اور صحافی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ رپورٹر کو آئے دن دھمکیاں ملتی ہیں۔ کبھی کبھی تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عمر چیمہ کو بھی ایک بار اغوا کرکے تشدد کیا جا چکا ہے۔
عمر چیمہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لائے۔ تشدد انھیں کام کرنے سے نہیں روک سکا۔ وہ جس قدر لکھ سکتے ہیں، اتنا لکھتے ہیں۔ جس قدر بول سکتے ہیں، اتنا بولتے ہیں۔
میں نے عمر چیمہ سے پوچھا کہ میڈیا سنسرشپ انھیں کس حد تک متاثر کر رہی ہے اور کیا یہ کسی ایک جانب سے ہے یا مختلف حلقوں کی طرف سے ہے؟
عمر چیمہ نے کہا کہ ہم نے جب سے صحافت شروع کی ہے، کافی باتیں سنتے آئے ہیں۔ مختلف قسم کی دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔ لیکن گھٹن کا جیسا ماحول آج ہے، پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ اس طرح کی سنسرشپ ہے کہ جس میں اس بات پر بھی سنسرشپ ہے کہ آپ یہ ذکر نہیں کرسکتے کہ سنسرشپ ہے۔
کون سا ادارہ ہے، کون لوگ ہیں جو دباؤ ڈالتے ہیں، اس بارے میں بات کرنے پر بھی پابندی ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی آزادی کی اتنی قدر نہیں کی جتنا اب احساس ہو رہا ہے کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے اور اس کا تحفظ کتنا ضروری ہوتا ہے تاکہ آپ ایک آزاد شہری رہ سکیں۔
سنسرشپ اتنی عجیب شے ہے کہ آپ کے خیالات کی قاتل بن جاتی ہے۔ آپ نے کچھ لکھنا ہو، کسی چیز کے بارے میں رپورٹ کرنا ہو، ذہن میں کوئی آئیڈیا آئے یا کہیں سے کوئی خبر ملے لیکن پھر خیال آئے کہ اوہو، اس پر تو ہم لکھ ہی نہیں سکتے۔ سوچیں کہ پھر کیا احساس ہوتا ہوگا۔ اس طرح تخلیقی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ کام متاثر ہوتا ہے۔ خبر ضائع ہوجاتی ہے۔ ذرائع متاثر ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ آپ کچھ معاملات پر بہت ’سلیکٹو‘ ہوجاتے ہیں اور بہت شور مچاتے ہیں اور کچھ چیزوں پر خاموش رہتے ہیں۔
آپ نے پوچھا کہ سنسرشپ کیا صرف ایک طرف سے ہے؟ جی ہاں، ایک طرف ہی سے ہے۔ کن کی طرف سے ہے، یہ سنسرشپ کا حصہ ہے کہ اس بارے میں بات نہیں کرنی۔ اس کے بڑے مضمرات ہیں جو میری ذات سے بڑھ کر ہیں۔ بس تھوڑے کو زیادہ جانیے۔
میں نے دریافت کیا کہ کون آپ کو سنسرشپ کی پابندی کرنے کا کہتا ہے؟ دھمکیاں دینے والے تو آپ کو مجبور نہیں کر سکتے۔
عمر چیمہ نے کہا کہ میں اس سلسلے میں کس سے شکوہ کروں؟ اگر میرے سینئر مجھے بتائیں کہ کن حالات سے گزر رہے ہیں اور پھر کہیں کہ آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے۔ بعض کام ایسے ہیں کہ ان کی قیمت مجھے اپنی ذات سے ادا کرنا پڑتی ہے اور میں کرتا ہوں۔ لیکن آپ کے کسی کام کی قیمت پورے ادارے کو چکانی پڑے تو آپ سوچتے ہیں کہ میری وجہ سے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے ادارے کو جس طرح کے مسائل کا سامنا ہے، ہمیں ان سے آگاہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ مشکل وقت ہے، بحران کا عالم ہے، یہ وقت گزر جائے گا۔ امید ہی زندگی ہے اور اسی امید پر معاملات چل رہے ہیں کہ یہ وقت گزر جائے گا۔
جنگ گروپ کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے جہاں آپ کو بہت زیادہ آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ آج کل المیہ یہ ہے کہ آزادی موجود ہے۔ لیکن اسے استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ اس کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ آپ کو اپنے دوستوں اور ’کولیگز‘ کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ اس کے جو معاشی اثرات ہوتے ہیں، اس کے بارے میں دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے خاندان کا بڑا آپ کو مسائل کے بارے میں بتا رہا ہو تو سب کے لیے سبق ہوتا۔ ایسی صورتحال کا سامنا ہے۔
میں نے سوال کیا کہ صورتحال کب تک برقرار رہنے کا امکان ہے؟ بعض سینئر صحافی کہتے ہیں کہ انھیں بہت دیر تک حالات بدلنے کی امید نہیں۔
عمر چیمہ نے کہا کہ میں صحافی برادری کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں۔ ہم باتیں بہت سنتے رہے ہیں۔ سنا تھا کہ ہم سے پہلے بہت جدوجہد ہوئی تھی۔ اب وقت آیا ہے تو ہماری کمیونٹی اس امتحان میں ناکام ہوئی ہے۔ مستقبل میں جب یہ وقت ماضی کا حصہ بن چکا ہوگا اور ہم اسے یاد کریں گے یا تاریخ لکھنے والے اس کے بارے میں روشنی ڈالیں گے تو اچھے الفاظ میں ذکر نہیں کریں گے۔ مجموعی طور پر ہماری صحافتی برادری کا آزادی کے چھن جانے پہ ویسا ردعمل نہیں ہے، جیسا ہونا چاہیے۔
یہ سلسلہ کب تک چلے گا، میرا خیال ہے کہ یہ کافی حد تک ہم پر منحصر ہے کہ کس قدر مزاحمت کرتے ہیں۔ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے چل پڑیں تو اس بحران سے جلدی نکل سکتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیار ہے، وہ کب تک اسے جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن، اگر ہم خاموشی سے بیٹھے رہیں گے تو یہ سلسلہ برس ہا برس چلتا رہے گا۔ ہم ایک نیو نارمل میں داخل ہوجائیں گے کہ ہمیں جتنی گنجائش ملے گی۔ ہم اسے غنیمت سمجھیں گے۔ لیکن ایک متحرک کمیونٹی کے طور پر ہمیں وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی جدوجہد شروع کر دینی چاہیے۔
میں نے کہا کہ نئے نئے چینل آرہے ہیں اور صحافی بڑی بڑی تنخواہوں کی پیشکش پر ادھر ادھر جارہے ہیں۔ یہ صحافت کے لیے کتنی مبارک بات ہے؟ آپ کو پیشکشیں تو ہوئی ہوں گی؟ کبھی ادارہ بدلنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟
عمر چیمہ نے کہا کہ سچی بات ہے، مجھے کوئی پیشکش نہیں ہوئی۔ ہم اب جنگ گروپ کے ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہم کسی اور کے لیے قابل قبول نہیں رہے۔ دوسرے اداروں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے پاس گئے تو ان کے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ یہاں بہت اچھا ماحول ہے۔ ایک دو چیزیں بہت اچھی ہیں کہ یہ ’لیگیسی میڈیا گروپ‘ ہے۔ ان کا صحافت کے ساتھ خاص تعلق ہے اور یہ اس کی قدر کرتے ہیں۔
نئے چینلوں کے آنے سے بظاہر میڈیا انڈسٹری میں وسعت آرہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ صحافت کی خدمت کم ہے اور خطرات زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ نئے لوگ بااثر اشرافیہ میں شامل ہونے کے لیے اس شعبے میں آرہے ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ اس میں منافع تو کم ہے، لیکن اس کے ذریعے وہ اپنے دوسرے کاروباری مفادات کا تحفظ کریں گے۔
نئے میڈیا گروپس کے ساتھ میڈیا میں ’کارپوریٹ کلچر‘ آرہا ہے۔ انجام کار صحافیوں کی آزادی ختم ہو رہی ہے۔ پاکستان کوئی پہلا ملک نہیں جہاں ایسا ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھارت میں ایسا ہوا ہے، ترکی میں ہوا ہے، مشرقی یورپ کے کئی ملکوں میں ہو رہا ہے۔ راپرٹ مرڈوک کی ایمپائر کتنی بڑھ چکی ہے۔ یہ میڈیا کی کارپوریٹرائزیشن ہے۔ اس سے صحافیوں کو شاید نوکریاں زیادہ ملیں گی۔ لیکن صحافت کی موت واقع ہوتی جارہی ہے۔
میں نے سوال کیا کہ ماضی میں میڈیا سنسرشپ پر سیاسی جماعتیں آواز اٹھاتی تھیں۔ لیکن اس بار خاموش ہے۔ کیا ابھی تک سیاست دانوں کو احساس نہیں ہوا؟
عمر چیمہ نے کہا کہ انھیں اس کا تاخیر سے احساس ہوا ہے۔ جب انھیں احساس ہوا کہ ان کی آواز دب گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا سنسرشپ کی زد میں آگیا ہے تو وقت گزر چکا تھا۔ اب میڈیا اپنے بحران سے گزر رہا ہے اور وہ اپنے بحران کا شکار ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے پچھتاوے کا احساس تو موجود ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ پچھتاوے کا سلسلہ جاری رہے گا یا اس پچھتاوے کو کسی عملی جدوجہد کی شکل دی جائے گی۔ مجھے عملی جدوجہد کا امکان کم نظر آتا ہے لیکن امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہر بحران میں مواقع ہوتے ہیں اور ابھی جو حالات ہیں، انھوں نے ایک موقع فراہم کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور صحافی مل کر مشترکہ جدوجہد کریں۔
نوٹ: وائس آف امریکہ اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورت حال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے