جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کشیدگی برقرار

جے این یو میں طلبہ پر حملے کے بعد بھارت میں جاری مظاہروں کی شدت میں دوبارہ اضافہ ہو گیا ہے۔

طلبہ اور اساتذہ پر اتوار کو ہونے والے تشدد کے خلاف بھارت کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ممبئی، کولکتہ، حیدر آباد کے ساتھ کرناٹک اور مغربی بنگال میں بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔

 

 نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اتوار کو کچھ نقاب پوش افراد ڈنڈے لے کر ہجوم کی شکل میں داخل ہوئے تھے۔ ملزمان نے یونیورسٹی میں توڑ پھوڑ کی اور طلبہ اور اساتذہ پر تشدد کیا۔

دہلی پولیس نے کہا ہے کہ وہ نقاب پوش افراد کے جامعہ کی حدود میں داخلے اور طلبہ پر تشدد کے واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔

دہلی پولیس نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا ہے جس میں ہنگامہ آرائی اور املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

پولیس افسر رویندر آریا کے مطابق سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا گیا ہے۔

شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ متنازع قانون کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا مرکز اسی یونیورسٹی کو قرار دیا جا رہا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ انجمن کی سربراہ ایشی گھوش بھی زخمیوں میں شامل ہیں۔ پیر کو انہوں نے واقعے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی گھنٹوں قبل نامعلوم افراد کی موجودگی سے متعلق پولیس کو آگاہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

 

جے این یو کے طلبہ اور بعض فیکلٹی ممبران نے الزام عائد کیا ہے کہ طلبہ پر تشدد کے واقعے میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طلبہ یونین اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پرشاد ملوث ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کی طلبہ تنظیم نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

طلبہ پر تشدد کے واقعے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے دہلی پولیس اور حکمراں جماعت پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

واقعے کے بعد سے جواہر لعل یونیورسٹی کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے جب کہ اس دوران یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔