کیا صرف دو معاشرے ہی ممکن ہیں؟

’وہ اقدار جنہیں مشرقی تہذیب کہا جاتا ہے نوجوان نسل کے لیے نہیں بنائے گئے۔ یہ دراصل بوڑھوں کے لیے وضع کیے گیے ہیں‘
پاکستان کی نوجوان نسل میں ملک چھوڑنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جب کہ بوڑھے اور بزرگ دنیا میں جہإں پر بھی ہوٕں اپنے ملک کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔

اس کہ وجہ بتانا چاہتا ہوں۔

وہ اقدار جنہیں مشرقی تہذیب کہا جاتا ہے نوجوان نسل کے لیے نہیں بنائے گئے۔ یہ در اصل بوڑھوں کے لیے وضع کیے گیے ہیں۔ اور جب بھی ان اقدار کی بنیاد پر ایک معاشرے کی تشکیل ہوگی، بوڑھوں کی پیروں تلے جنت ملے گی اور نوجوانوں کو تہذیب اور تمدن کے ہنٹر مارے جارہے ہونگے!

آج کے بلاگ میں، میں دو معاشروں کا آپس میں comparison پیش کروں گا جن میں مجھے رہنے کا اتفاق ہوا ہے، اور وہ ہیں پاکستان اور امریکہ۔

اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھایا جائے یہ بات دھیان میں رکھیے کہ امریکہ اپنی آبادی کے لحاظ سے بوڑھوں کا ملک ہے اور پاکستان جوان لوگوں کا۔ سنہ 2010 کے اندازوں کے مطابق امریکہ کی Median Ageتقریباً 37 سال بنتی ہے، جبکہ پاکستانی آبادی کی اوسط عمر صرف 22 سال ہے(CIA: World Factbook)۔

اور جو لوگ Demographics کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دونوں ممالک کی اوسط عمر میٕں یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ ایک ملک باقاعدہ ادھیڑ عمر کے لوگوں کا ہوکر رہ جاتا ہے، جبکہ دوسرا نوجوانوں کا۔

باوجود اس کے، جب میں امریکہ میں اپنے گھر سے باہر نکلتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورا معاشرہ نوجوانوں اور خآص طورپر teenagers کے لیے بنایا گیا ہے یعنی اس طبقے کے لیےجو یہاں آبادی ہے لحاظ سے اقلیت میں ہے۔

میرے گھر کے باہر فٹبال کے اتنے بڑے میدان ہیں جن کا دوسرا حصہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ان کے ساتھ ہی ساتھ بیس بال کے میدان شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر محلے میں نوجوانوں کی تفریح کے لیے swimming poolsموجود ہیں۔ مگر یہ اکثر خالی ملتے ہیں، کیونکہ امریکہ کے ان علاقوں میں نوجوان آبادی بہت کم ہے جو شہر سے دور ہیں۔


اس بلاگ کو لکھنے سے پہلے میں نے یہ معلوٕم کرنے کی کوششی کی کہ پوری امریکی سرزمین کا کتنا رقبہ نوجوان نسل کی تفریح کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ مگر اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

ہم یہ تو گن سکتے ہیں کہ تمام فٹبال اور بیسبال کے میدانوں کو جمع کردیا جائے تو کتنا بڑا رقبہ بنتا ہے، مگر نیشنل پارکس کی وجہ سے یہ گنتی مشکل ہوجاتی ہے۔

الاسکا میں موجود Wrangell St Eliasنیشنل پارک ہی 13000 مربع میل پر مبنی ہے، اور اس طرح کے تمام پارکوں کو جمع کردیا جائے تو یہ دنیا کے چند ممالک سے زیادہ علاقہ گھیر لیتے ہیں۔

جب میں یہاں کے شاپنگ مال میں قدم رکھتا ہوں تو اس کی زیادہ تر دوکانیں نوجوانوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ نائکی کےجوتوں سے لے جینز کی پتلونوٕں تک جہاں کہیں بھی آپ کی نظر پڑتی ہے آپ کو وہی اشیا بکتی نظر آتی ہیں جو جوانوں کی ضرورت ہیں۔

تین روز قبل، میٕں اپنے سوٹ کی جیکٹ alterationکے لیے دینے نکلا۔ کیونکہ، سوٹ بوڑھے لوگوں کا لباس ہے اس وجہ سے بہت مشکل سے ایک ایسی دوکان ملی جہاں یہ بیچے جارہے تھے۔ زیادہ تر شاپنگ مال میں جینز، ٹی شرٹ اور نائکی کے جوتے فروخت کیے جا رہے تھے۔

یہی معاملہ امریکی میڈیا کا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ یہیں پر واقع ہے۔

اگر آپ اس کی فلموں کو دیکھیں تو زیادہ تر فلموں کاtarget audience اٹھارہ سالہ نوجوان ہوتا ہے۔ پچھلے سال کی سب سے زیادہ کمانے والی فلموٕں میں تقریباً تمام فلمیں 20 سال سے کم لوگوں کے لیے ہیں۔
ان کی فہرست ملاحظہ فرمائیے:

1 Marvel's The Avengers BV $623,357,910
2 The Dark Knight Rises WB $448,139,099
3 The Hunger Games LGF $408,010,692
4 Skyfall Sony $303,460,116
5 The Hobbit: An Unexpected Journey WB $298,609,930
6 The Twilight Saga: Breaking Dawn Part 2 Sum. $291,445,450
7 The Amazing Spider-Man Sony $262,030,663
8 Brave BV $237,283,207
9 Ted Uni. $218,815,487
10. Madagascar 3: Europe's Most Wanted P/DW $216,391,482

اس فہرست میں شاید سوائے Skyfallکے، کوئی بھی فلم ایسی نہیں جو کہ 20 سال سے کم عمر کے انسان کے لیے نہ بنی ہو۔ اور ان کے سامنے درج اعداد ان فلموں سے بنایا گیا وہ منافع ہیں جو اس بات کی ضمانت دے رہا ہے کہ نوجوان نسل امریکہ کی معیشت کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے۔

اب ذرا چلتے ہیں پاکستان کی طرف جہاں میں نے اپنی نوجوانی کا زیادہ تر عرصہ گزارا ہے۔

یہ یاد رہے کہ پاکستان دراصل نوجوانوں کا ملک ہے، کیونکہ اس کی آبادی امریکہ کے مقابلے میں بہت کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔

جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو مجھے نوجوان نسل سڑکوں اور گلیوں میں کرکٹ کھیلتی نظر آتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اس ملک میں مختلف مقاصد کے لیے زمین کو تقسیم کیا گیا تو اس آبادی کے وجود تک کو تسلیم نہیں کیا گیا جس پر اس ملک کی اکثریت مشتمل ہے۔

فلم انڈسٹری کو مشرقی تہذیب نے کھڑا ہی نہیں ہونے دیا کہ اس کا کسی بھی ملک سے مقابلہ تک کیا جائے ۔

اگر آپ ٹیلیویژن کی طرف دیکھتے ہیں تو زیادہ تر On-air time کیپیٹل ٹاک، کامران خان شو اور عالم آن لائن جیسے پروگرام لیتے ہیں، جو میرے نزدیک، بوڑھوں کی ضرورت ہیں۔

اگر میں اس مشرقی تہذیب سے پوچھوں کہ اس نے اپنی نوجوان نسل کے لیے مکمل ٹیلیویژن پروگرامنگ کے کتنے گھنٹے مخصوص کیے ہیں، تو یہ ایک بہت ہی معمولی دورانیہ ہوگا۔ یعنی یہ وہ اقدار ہیں جو دراصل جوانی کے وجود سے اجتماعی انکار کا نام ہے۔

صحیح اور غلط کا یہ مخصوص تصور جسے مشرقی تہذیب کہا جاتا ہے، فلمیں بند کروائے گا، سنیما ہال ختم کروائے گا، میراتھان ریس رکوائے گا اور میوزک کانسرٹ پر پابندی لگوائے گا۔ یعنی جوانی کا اظہار کسی بھی شکل میں کیوٕں نہ ہو مشرقی تہذیب اسے اپنے دائرے سے باہر دھکیلنے کی کوشش کرے گی کیونکہ یہ تہذیب ایک مخصوص عمر کے لوگوں کے اقدار کی ترجمان ہے جو اُنہی کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔

اس بلاگ کے اختتام پر میں صرف ایک ہی بات کہوں گا۔

ہمارے معاشرے کے علاوہ اگر کسی زندہ قوم کے اوپر یہی اقدار نافظ کیے جائیں تو دنیا میں بغاوت ہو جائے۔

یہ بغاوت جوانوں کی بغاوت کہلائے گی جس میں نوجوان نسل اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئےگا اور وہ تمام عمارتوں کو گرادے گی جو ان کی ضرورت کے علاوہ کسی اور طبقے کے لیے بنائی گئی ہیں۔

وہ ٹیلیویژن کے چینل جلادے گی جو 24 گھنٹے ان کے وجود سے انکار کررہےہیں اور قدامت کے شادی ہال مسمار کر دےگی جہاں 35 سال کے ادھیڑ عمر والے کو نکاح کی مبارکباد ملا کرتی ہے۔

آج جب میں تہذیب کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھتا ہوں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ جانے والی نسل اور آنے والی نسل کے درمیإن ایک بہت بڑا Conflict of Interestہے۔

یعنی، اگر بوڑھوں کو معاشرہ بنانے کا اختیار دیا جائے تو وہ ایک بالکل مختلف قسم کا معاشرہ تشکیل دیں گے اور اگر نوجوانوں کو یہی اختیار دیا جائے تو ایک مختلف معاشرہ وجود میں آئے گا۔

موجودہ دور میں صرف یہی دو معاشرے ممکن ہیں اور فطرت کے چند طے شدہ اصولوں کے تحت جوانوں کے بنائے ہوئے معاشرے بوڑھوں کے تشکیل دیے ہوئے معاشروں کو ایسے چیرپھاڑ کر ختم کر ڈالتے ہیں جیسے جوان شیر بوڑھے شیر کو مار کر شیروں کے ٹولے کی سربراہی حاصل کرلیتا ہے۔

اسی خیال کو اگلے بلاگ میں مزید آگے بڑھایا جائے گا۔