طالبان کے سربراہ پہلی بار منظر عام پر، 'ہماری حکومت تسلیم نہ کرنا دنیا کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے'

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد پہلی مرتبہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ منظرِ عام پر آئے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا ہے۔

دوسری جانب طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور طالبان نے ہفتے کو کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا ملک میں جاری مختلف بحرانوں کو طول دے گا اور بالآخر یہ دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان حکام نے ملا ہبت اللہ کے منظر عام پر آنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہفتے کو ہبت اللہ اخوندزادہ نے دارالعلوم حکیمہ مدرسے کا دورہ کیا اور اپنے ''بہادر سپاہیوں اور شاگردوں'' سے خطاب کیا۔

ملا ہبت اللہ کے دورے کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور تقریب کی کوئی تصاویر یا ویڈیو سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ طالبان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان کی دس منٹ کی آڈیو ریکارڈنگ شیئر کی ہے۔

فائل فوٹو


اخوندزادہ سال 2016 سے طالبان کے سربراہ ہیں لیکن وہ عوامی منظرنامے سے غائب رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگست میں طالبان کے افغانستان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی وہ منظر عام پر نہیں آئے تھے اس یکسر عدم موجودگی کے بارے میں کئی افواہیں گردش کرنے لگی تھی۔

طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک مختلف بحرانوں کا شکار ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ''موجودہ نظام کو تسلیم کرنا افغانستان کے عوام کا حق ہے اور کوئی بھی ہمیں اس حق سے محروم نہیں رکھ سکتا نہ ہی اس سے کسی کو فائدہ ہو گا۔''

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ''ہمارا امریکہ کو پیغام ہے کہ اگر تسلیم نہ کرنے کا عمل طول پکڑے گا تو افغانستان کے مسائل طول پکڑیں گے، یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے جو بالآخر دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کے اوائل میں قطر میں ہونے والی ملاقات میں طالبان قیادت نے یہی پیغام امریکی حکام کو دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں امید ہے کہ وہ اس پر غور کریں گے اور اللہ نے چاہا تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔''

ذبیح اللہ مجاہد نے بیرون ملک افغانستان کے اثاثوں کو بحال کرنے کے مطالبے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 20 برس قبل امریکہ اور طالبان کی جنگ کی وجہ دوطرفہ سفارتی تعلقات کا نہ ہونا اور اس وقت کی طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنا تھی۔

طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ''ان معاملات کو مذاکرات، سیاسی تصفیے کے ذریعے حل کیا جاسکتا تھا اور 20 برس کی تھکا دینے والی جنگ کو روکا جا سکتا تھا۔''

انہوں نے کہا کہ انہوں نے واشنگٹن سے کابل میں امریکی سفارت خانے دوبارہ کھولنے اور معمول کی سفارتی سرگرمیاں بحال کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔

اگست میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد امریکہ سمیت مغربی ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے تھے۔ البتہ افغانستان کے کچھ پڑوسی اور علاقائی ممالک بشمول چین، پاکستان، ایران، ترکی اور روس نے اپنے سفارتی مشن جاری رکھے تھے اور افغانستان اور بیرون ملک طالبان حکام سے براہ راست اعلیٰ سطح ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے خواتین بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے حقوق سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف افغان صوبوں میں لڑکیاں اسکولوں کو واپس آ چکی ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں میں یہ مسئلہ آہستہ آہستہ حل ہو رہا ہے۔

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ ''ہم غیرملکیوں کو یہ حق نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں ہدایت دیں کہ کس طرح ہماری لڑکیوں کو تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنی چاہئیں۔یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔''

ترجمان طالبان کے مطابق '' ہم عالمی برادری کا حصہ ہیں اور ہم نے اپنی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرانے کے لیے دنیا کو درکار تمام شرائط کو پورا کردیا ہے۔''

امداد کی فوری ضرورت ہے؛ اقوامِ متحدہ

ادھر اقوامِ متحدہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے لیے فوری طور پر انسانی بنیادوں پر امداد بھیجے۔

اقوامِ متحدہ نے کہا کہ ہے کہ چار دہائیوں سے زائد سے جاری مہلک بحران اور بار بار آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہوا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس ہفتے انسانی ضروریات غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہیں اور لگ بھگ چار کروڑ آبادی والے ملک میں نومبر کے آخر تک نصف سے زیادہ لوگ 'خوراک کے شدید عدم تحفظ' کا سامنا کر سکتے ہیں۔