ایک اندازے کے مطابق یہ عمارتیں ایک صدی قبلِ مسیح میں تعمیر کی گئی تھیں جب اس خطے میں بودھ مت کا عروج تھا۔ قیاس ہے کہ یہ تعمیرات بودھ حکمراں کنشک کے حکم پر ہوئیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی عظیم عمارتیں شکست و ریخت کا شکار ہوتی رہیں۔ جن میں سے کچھ ڈھ چکی ہیں اور کچھ کے کھنڈرات ابھی باقی ہیں۔ 1980 میں یونیسکو نے انہیں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
آج یہ کھنڈرات ہر آنے والے کو ماضی کی عظمتوں کی یاد دلاتے ہیں۔ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کو کہنا ہے کہ مناسب دیکھ بھال سے دو ہزار سال پرانے ان کھنڈرات کو مزید خستہ حالی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
1833 میں ان کھنڈرات کی کھدائی کے دوران کچھ مزدوروں کو یہاں سے قدیم سکے اور مجسمے ملے، جس کے بعد برصغیر کی انگریز حکومت نے اس علاقے کو ایک تاریخی ورثہ قرار دے کر 1907 میں باقاعدہ کھدائی کا کام شروع کر دیا۔
کھدائی کے دوران حاصل ہونے والی نایاب اور نادر اشیا کو پشاور کے عجائب گھر میں منتقل کر دیا گیا۔
ایک دور میں یہ خطہ بودھ مذہب کے پیروں کاروں کے لیے ایک بڑے علمی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔
یونیسکو نے ان کھنڈرات کو 1980 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
یہاں سے دریافت ہونے والی اشیا میں مختلف طرح کے مجسمے، اسٹوپے، مٹی اور پتھر کے برتن اور کئی دوسری چیزیں شامل ہیں۔
مورخین کے مطابق خیبرپختونخوا کا ضلع مردان، پشاور اور وادی سوات بودھ مت کے پیروکاروں کا ایک بڑا مرکز تھے اور یہاں نہ صرف دور دراز علاقوں سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے بلکہ فارغ التحصیل ہو کر اسے دور دور تک پھیلاتے تھے۔
تاریخ دانوں کے مطابق تخت بائی میں قائم علمی مراکز میں حصول علم کے لیے آنے والوں کا تعلق چین، افغانستان، وسط ایشیا اور دیگر ممالک سے تھا۔ اب بھی ان کھنڈرات کو دیکھنے کے لیے آنے والوں میں سے اکثر سیاحوں کا تعلق چین، کوریا اورجاپان سے ہوتا ہے۔