امریکی محکمہٴ خارجہ کی جانب سے ہر برس دنیا بھر سے ایسی خواتین کو ’انٹرنیشنل ویمن آف کوریج ایوارڈ‘ سے نوازا جاتا ہے جنہوں نے قائدانہ کردار میں اپنا لوہا منوایا ہو، ہمت اور بہادری سے کڑے امتحانوں کا سامنا کیا ہو یا پھر اپنے اپنے معاشروں میں بالخصوص خواتین کے حقوق کا علم اٹھایا ہو۔
رواں برس، دنیا بھر سے منتخب کردہ 10 خواتین کو یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ انہی خواتین میں ایک تبسم عدنان بھی شامل ہیں۔
تبسم کا تعلق پاکستان میں خیبر پختونخواہ کے شہر سوات سے ہے اور انہوں نے سوات میں ’خویندو جرگہ‘ کے نام سے پاکستان میں خواتین کے پہلے جرگے کی بنیاد رکھی۔ اس جرگے میں خواتین کے مسائل حل کیے جاتے ہیں اور یہ اپنی طرز کا پہلا ایسا جرگہ ہے۔
امریکی محکمہٴخارجہ میں ایوارڈ کی تقریب کے بعد، وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے، تبسم عدنان کا کہنا تھا کہ وہ اس ایوارڈ کو پا کر بہت خوش ہیں اور یہ کہ انہوں نے یہ ایوارڈ اپنے ملک اور دنیا بھر کی خواتین کے نام کیا ہے۔
تبسم عدنان کی شادی خیبر پختونخواہ کی روایت کے مطابق کم عمری میں ہی اس وقت ہوئی جب وہ محض 13 برس کی تھیں۔ مگر یہ شادی ان کے لیے بہت کامیاب تجربہ نہ تھی۔ انہیں اپنے شوہر کی جانب سے اذیت کا سامنا رہا اور بالاخر انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرلی۔ مگر اس طلاق کی قیمت انہیں یوں ادا کرنا پڑی کہ ان کے بچے ان سے چُھوٹ گئے۔۔۔۔
ہمارے اس سوال پر کہ، ’کیا پاکستان جیسے معاشرے اور بطور ِخاص سوات جیسے شہر میں رہ کر ایسا اقدام اٹھانا آسان تھا؟‘ ۔۔۔ تبسم اس کا جواب کچھ یوں دیتی ہیں: ’یقیناً یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا۔ مگر جب ظلم کو ظلم نہ کہا جائے تو پھر ظلم سہنے والا بھی ظالم بن جاتا ہے۔ اسی لیے میں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ٹھانی‘۔۔۔
تبسم عدنان یہ بھی کہتی ہیں کہ محکمہٴخارجہ کی جانب سے ایوارڈ حاصل کرنے سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ اپنے معاشرے میں خواتین کے لیے پہلے سے بھی زیادہ حوصلے اور عزم سے آواز بلند کریں گے اور خواتین کو معاشرے میں حقوق دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گی۔