رپورٹ: اصفرامام
یہ چند دنوں یا مہینوں کی بات نہیں، تقریبا 46 سال کا جاری المیہ ہے۔ 1971 میں جب متحدہ پاکستان کے مشرقی حصے میں علیحدگی کی تحریک نے سنگین سیاسی بحران اور بڑے پیمانے پر تشدد کو جنم دیا تو قتل وغارت گری اور افراتفری کے ماحول میں بہت سے مسائل نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنے ہی ملک میں بے یار ومددگار ہوکر رہ گئے۔
امریکہ کے ایک موقر انگریزی روزنامے نیو یارک ٹائمز کے بقول یہ وہ لوگ تھے جو اپنے وطن میں ہی گویا بے وطن کردئے گئے، اج اتنے طویل عرصے بعد بھی وہ بے خانماں افراد جن کی تعداد اب پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے بنگلہ دیش کےمختلف شہروں کے 66 کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان بے کس لوگوں کے پاس نہ بنگلہ دیش کی شہریت ہے اور نہ ہی پاکستان انھیں قبول کیا ہے۔ ان کا مستقبل مخدوش ہے اور ان کی تین نسلیں تعلیم اور روزگار کی سہولتوں سے محروم چلی آرہی ہیں۔ لیکن امریکی مسلمانوں کی چند تنظیمیں ان کے لئے امید کی ایک کرن بن کر سامنے آئے ہیں۔
ان تنظیموں نے اس بات کا بیڑا اٹھایا ہے کہ ان بے وطن لوگوں کو انسانیت کے ناطے کم از کم جدید تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان کا مسقبل محفوظ ہو اور وہ ایک باعزت زندگی کی جانب لوٹ سکیں۔
ان ہی تنظمیوں میں فرینڈز اف ہیومنٹی کے نام سے ایک غیر سرکاری ادارہ شکاگو میں کام کررہا ہے جس نے محصورین کے کیمپیوں میں اسکول قائم کئے ہیں۔
گزشتہ دنوں فرینڈز اف ہیومینٹی نے بالٹی مور میں منعقد ہونے والے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے سالانہ کنونشن میں اسٹال لگایا تاکہ ملک بھر سے جمع ہونے والے امریکی مسلمانوں کو بنگلہ دیش کے 66 کیمپوں میں پھنسے ہوئے ان محصورین کی حالت زار سے آگاہی فراہم کی جاسکے۔
فرینڈز آف ہیومینٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طور خان نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ محض 25 ڈالر کا عطیہ کیمپوں میں مقیم کسی نوجوان کے سال بھر کی تعلمی اخراجات کے لئے کافی ہے۔
فرینڈ آف ہیومینٹی کے سربراہ احتشام ارشد نظامی کہتے ہیں کہ محصورین کا مسئلہ ان کے بقول انسانی تاریخ کا طویل ترین المیہ ہے، ان کی تنظیم جہاں ان کی بحالی کے لئے تعلیم کو ذریعہ بنارہی ہے وہیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکام سے بات چیت کے ذریعہ ان کے شہری حقوق کی بحالی کے لئے بھی کوشاں ہے۔
اس مسلئے پر نظر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ 46 برس پہلے کیمپوں میں ڈالے گئے ان محصورین کی تعداد ڈھائی لاکھ تھی جو اب کسی طور پانچ لاکھ سے کم نہیں، ان کی حالت خراب ہے، آٹھ بائی دس فٹ کے کمرے میں پور ے کا پورا خاندان آباد ہے، انھیں سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلے کی اجازت نہیں اور چونکہ انھیں ووٹ کا حق حاصل نہیں اس لئے کوئی بھی سیاسی رہنماء ان کی ہمنوائی کے لئے تیار نہیں۔ جبکہ عالمی ادارے بھی ان بے وطنوں کے لئے فکر مند نظر نہیں آتے۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ محصورین کے اس مسئلے کو اگر انسانی بنیادوں پر سنجیدگی سے لیا جاتا تو شائد اس کا حل بہت پہلے نکل چکا ہوتا لیکن بقول ان کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیاست کی نذر ہوگیا اور اپنے پیچھے کرب کی ختم نہ ہونے والی طویل داستان چھوڑ گیا۔