پاکستان کے ممتاز کارٹونسٹ اور مصور صابر نذر تین دہائیوں سے صف اول کے اخبارات اور رسالوں کے لیے کارٹون بنارہے ہیں۔ ان کی مہارت، ذہانت اور سیاسی بصیرت ان کے خاکوں میں جھلکتی ہے۔ بعض اوقات ان کا کارٹون دیکھ کر آہ، واہ اور ہاہا کی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوتی ہیں۔
اس کے باوجود صابر نذر کے کارٹون چھپنے سے رہ جاتے ہیں کیونکہ ایڈیٹر انھیں چھاپنے پر تیار نہیں ہوتے۔ صابر نذر نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بعض اوقات کارٹون رک جاتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے خوف اور ایک ہوتی ہے سیلف سنسرشپ۔ پابندیوں کا ایک دائرہ ہوتا ہے لیکن آپ اپنے لیے ایک اور چھوٹا دائرہ بنالیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ کام بھی نہیں کرپاتے جو شائع ہوسکتا ہے۔
صابر نذر کہتے ہیں کہ کارٹون روک لیا جائے تو وہ احتجاج نہیں کرتے۔ انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ ایڈیٹر کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ ایک بار انھوں نے توہین مذہب کے موضوع پر کارٹون بنایا جسے ایک نہیں دو ایڈیٹرز نے روک دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کئی سال سے ان کا کوئی کارٹون نہیں روکا تھا۔ صرف دو دن بعد سلمان تاثیر کو قتل کردیا گیا۔ صابر نذر کو یقین ہے کہ ایڈیٹرز حالات کو بہتر سمجھتے ہیں اور وہ ان پر بھروسا کرتے ہیں۔
صابر نذر نے بتایا کہ جو لوگ کسی کارٹون پر خفا ہوتے ہیں وہ ادھر ادھر سے پیغام بھجواتے ہیں۔ سیاست دانوں کی مجبوری ہے کہ وہ کھلے الفاظ میں نہیں دھمکا سکتے۔ جنھیں ہم شدت پسند کہتے ہیں، وہ بہت کم لوگ ہوں گے لیکن مجموعی طور پر پورے معاشرے میں شدت پسندی بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ جب کوئی نئی پارٹی بنتی ہے تو وہ خود کو بہت شدت سے دیانت دار کہتی ہے اور دوسروں پر الزامات لگاتی ہے۔ اس سے بھی معاشرے میں برداشت کی سطح کم ہوتی ہے۔
صابر نذر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اخبارات کارٹون کو اپنا مستقل حصہ نہیں سمجھتے۔ جاوید اقبال ایک زمانے سے کارٹون بنارہے ہیں لیکن اخبار میں ان کی کوئی مستقل جگہ مقرر نہیں۔ ان کا کارٹون کبھی صفحہ اول پر چھپتا ہے اور کبھی اندر کے صفحات پر۔ نجم سیٹھی کے فرائیڈے ٹائمز کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے فرنٹ پیج پر کارٹون چھاپنا شروع کیا۔ پاکستانی معاشرے میں مزاح کی گنجائش بھی کم رہ گئی ہے۔ اخبارات میں روزانہ دو ڈھائی سو کالم چھپتے ہوں گے لیکن مزاح کتنا ہوتا ہے؟ کارٹون بنانے والے بھی اسی لیے کم ہیں۔
صابر نذر سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کارٹونسٹس کا ایک دوسرے سے نہیں، پوری دنیا کے کارٹونسٹس سے مقابلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک امریکن سینڈیکیٹ کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ اگر عالمی معیار کا کام نہیں ہوتا تو وہ نہیں چھاپتے۔ ان کا اخبار کراچی کا ہے اور وہ لاہور میں رہتے ہیں۔ وہ اچھا کارٹون نہیں بنائیں گے تو ضروری نہیں کہ وہ ان سے بنوائیں یا کسی پاکستانی سے کارٹون بنوائیں۔ وہ دنیا میں کسی بھی کارٹونسٹ سے کام کرواسکتے ہیں۔ اس لیے مقابلہ بہت سخت ہوگیا ہے۔
صابر نذر نے پاکستان کے تمام کارٹونسٹس کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں، جاوید اقبال صاحب کا کام بہت سادہ ہے لیکن دراصل وہ بہت مشکل کام ہے۔ بہت زیادہ ریاضت کے بعد یہ سادگی آتی ہے۔ ظہور کے آئیڈیاز بہت اچھے ہوتے ہیں اور وہ اپنے کام کے ماہر ہیں۔ فیکا نے ضیا کے مارشل لا دور میں آزادی اظہار کی لڑائی لڑی ہے۔ آج اخبار میں کارٹونسٹ کو جو جگہ دستیاب ہے، اس میں فیکا کا بڑا کردار ہے۔ آج کے کارٹونسٹ جس روایت کو لے کر چل رہے ہیں، وہ فیکا کی دی ہوئی ہے۔