تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی علمی استعداد کےبجائے اس کا سماجی پس منظریہ طے کرتا ہے کہ وہ آگے چل کر کس قسم کی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا
لندن —
ایک تحقیقی رپورٹ بتاتی ہے کہ بچوں کے سماجی پس منظر کا اُن کی ذہانت اور ہوشیاری پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
'آکسفورڈ یونیورسٹی' کی قیادت میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی علمی استعداد کے بجائے اُس کا سماجی پس منظریہ طے کرتا ہے کہ وہ آگے چل کر کس قسم کی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرئے گا۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ، پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہوشیار بچوں میں کھاتے پیتے گھرانوں کے ہم عمر ذہین بچوں کے مقابلےمیں اے لیول (ایڈوانس لیول) میں اچھی کارکردگی دکھانے کے امکانات 50 فیصد کم ہوتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہٴ 'سماجی پالیسی اور مداخلت' اور سویڈش انسٹی ٹیوٹ کی معاونت سے مکمل ہونے والے اس تحقیقی مطالعہ میں برطانیہ اور سویڈن میں 1940ءسے 1970 ء کے درمیان پیدا ہونے والے 10 سے13 برس کے بچوں کے امتحانی نتائج کا جائزہ لیا گیا۔
’میل آن لائن‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، بچوں کی ذہانت پرکھنےکے لیے ان کے ٹیسٹ اسکور کو استعمال کیا گیا۔ جبکہ، محققین نے نتیجے سے اخذ کیا کہ بچوں کی قدرتی علمی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ان کا پس منظر مستقبل کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے،خاص طور پر والدین کی تعلیم، ان کا سماجی رتبہ اور کلاس ہوشیار بچوں کی اسکول کی کارکردگی کو بے حد متاثر کرتا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہےکہ تحقیق کا نتیجہ، امتحانات میں پہلی سے پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والے ایسے ہوشیار بچوں کے درمیان تعلیمی کارکردگی کے فرق کی وضاحت پیش کرتا ہے جن کا تعلق پسماندہ اور امیر گھرانوں سے تھا۔
جائزہ رپورٹ کے نتیجے کے مطابق، برطانیہ میں 1970ءمیں پیدا ہونے والے بچے جن کا سماجی پس منظر پسماندہ گھرانوں سے تھا ان میں اے لیول میں اچھی کارکردگی دکھانے کے محض 40 فیصد امکانات موجود تھے۔ جبکہ، ایک ہی جیسی علمی صلاحیت رکھنے والے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں میں اے لیولز حاصل کرنے کے80 فیصد امکانات موجود تھے۔
تحقیقی مطالعے کے سربراہ اور مصنف ایرسیز بیبکوڈی نے کہا کہ اگرچہ بچے کے والدین کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا یا نہ ہونا اس بات کا تعین کرنےکےلیےایک اہم عنصر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسکول میں کیسی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ لیکن، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے سماجی رتبہ سے کہیں زیادہ بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر ان کے والدین کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا اثرانداز ہوتا ہے۔
اُن کے بقو، ہم نےبرطانیہ اور سویڈن کے تعلیمی نظاموں کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے جہاں انتہائی ذہین بچوں کے لیے ان کا پسماندہ سماجی پس منظر رکاوٹ بن رہا تھا۔ اسی طرح بہت سے ذہین اور ہوشیار بچے تعلیمی راستے کےبجائے کسی دوسرے راستے کے ذریعے دنیا میں نام روشن کرتے ہیں۔ لیکن، یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ پسماندہ پس منظر رکھنے والے بچے اکثر اسکولوں میں بھرپور تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
'ایڈنبرگ یونیورسٹی' میں ہونے والی ایک دوسری تحقیق میں بچوں کےاسکول کے اختیاری مضامین اور مستقبل کے سماجی رتبہ کےدرمیان تعلق ظاہرکےحوالے سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی مستقبل کی تعلیمی کارکردگی کا انحصار اسکول سے کہیں زیادہ ان مضامین پر ہوتا ہے جو وہ اسکول میں منتخب کرتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے مطابق، زیادہ سہولتوں کے حامل گھرانوں کے بچوں کے اختیاری مضامین میں انگریزی، سائنس، ریاضی جیسے مضامین شامل ہوتے ہیں، جن کی مدد سے انھیں مستقبل میں پروفیشنل ملازمت حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
'آکسفورڈ یونیورسٹی' کی قیادت میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی علمی استعداد کے بجائے اُس کا سماجی پس منظریہ طے کرتا ہے کہ وہ آگے چل کر کس قسم کی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرئے گا۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ، پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہوشیار بچوں میں کھاتے پیتے گھرانوں کے ہم عمر ذہین بچوں کے مقابلےمیں اے لیول (ایڈوانس لیول) میں اچھی کارکردگی دکھانے کے امکانات 50 فیصد کم ہوتے ہیں۔
’میل آن لائن‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، بچوں کی ذہانت پرکھنےکے لیے ان کے ٹیسٹ اسکور کو استعمال کیا گیا۔ جبکہ، محققین نے نتیجے سے اخذ کیا کہ بچوں کی قدرتی علمی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ان کا پس منظر مستقبل کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے،خاص طور پر والدین کی تعلیم، ان کا سماجی رتبہ اور کلاس ہوشیار بچوں کی اسکول کی کارکردگی کو بے حد متاثر کرتا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہےکہ تحقیق کا نتیجہ، امتحانات میں پہلی سے پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والے ایسے ہوشیار بچوں کے درمیان تعلیمی کارکردگی کے فرق کی وضاحت پیش کرتا ہے جن کا تعلق پسماندہ اور امیر گھرانوں سے تھا۔
جائزہ رپورٹ کے نتیجے کے مطابق، برطانیہ میں 1970ءمیں پیدا ہونے والے بچے جن کا سماجی پس منظر پسماندہ گھرانوں سے تھا ان میں اے لیول میں اچھی کارکردگی دکھانے کے محض 40 فیصد امکانات موجود تھے۔ جبکہ، ایک ہی جیسی علمی صلاحیت رکھنے والے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں میں اے لیولز حاصل کرنے کے80 فیصد امکانات موجود تھے۔
اُن کے بقو، ہم نےبرطانیہ اور سویڈن کے تعلیمی نظاموں کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے جہاں انتہائی ذہین بچوں کے لیے ان کا پسماندہ سماجی پس منظر رکاوٹ بن رہا تھا۔ اسی طرح بہت سے ذہین اور ہوشیار بچے تعلیمی راستے کےبجائے کسی دوسرے راستے کے ذریعے دنیا میں نام روشن کرتے ہیں۔ لیکن، یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ پسماندہ پس منظر رکھنے والے بچے اکثر اسکولوں میں بھرپور تعلیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
'ایڈنبرگ یونیورسٹی' میں ہونے والی ایک دوسری تحقیق میں بچوں کےاسکول کے اختیاری مضامین اور مستقبل کے سماجی رتبہ کےدرمیان تعلق ظاہرکےحوالے سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی مستقبل کی تعلیمی کارکردگی کا انحصار اسکول سے کہیں زیادہ ان مضامین پر ہوتا ہے جو وہ اسکول میں منتخب کرتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے مطابق، زیادہ سہولتوں کے حامل گھرانوں کے بچوں کے اختیاری مضامین میں انگریزی، سائنس، ریاضی جیسے مضامین شامل ہوتے ہیں، جن کی مدد سے انھیں مستقبل میں پروفیشنل ملازمت حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔