برطانوی اسکول جہاں کسی بھی بچے کی مادری زبان انگریزی نہیں

اسکول کی ہیڈ ٹیچر کے مطابق ایک سے زائد زبانیں بولنے والے بچے میں دو زبانوں میں سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو ان کی ذہانت کو مزید جلا بخشتی ہے ۔
گلیڈ اسٹون پرائمری اسکول کو برطانیہ کا واحد اسکول بتایا گیا ہے جہاں زیرتعلیم سبھی بچوں کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے یہاں پڑھنے والےتمام بچےغیرملکی ہیں جن میں زیادہ تر بچوں کی مادری زبان اردو یا پنجابی ہے ۔

برطانوی محکمہ تعلیم کی سال2013 کی رپورٹ میں گلیڈاسٹون پرائمری اسکول کو اول درجے کےاسکولوں میں شامل کیا گیا ہے ۔

پرائمری اسکول میں 20 سے زائد زبانیں بولنے والے بچے زیر تعلیم ہیں جن کےگھروں میں عربی، گجراتی پشتو،دری ،پرتگالی ،پولش،روسی ، فرانسیسی اور کئی افریقی زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ ،محکمہ تعلیم کے اعدادوشمار کے مطابق،گلیڈ اسٹون میں زیر تعلیم 80 فیصد بچوں کی زبان اردو یا پنجابی ہے ۔

گلیڈ اسٹون اسکول' پیٹر بروح ' شہر میں واقع ہےجولندن سے 75 میل کی دوری پرہے یہاں متفرق قومیتوں کے لوگ آباد ہی جن میں بڑی اقلیتی آبادی پاکستانی اور اٹالی کے باشندوں کی ہے ان کے علاوہ دیگر قومیتوں میں بنگلہ دیش،افغان ، لیتھویا، پولینڈ اور افریقی ممالک سےتعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔

اسکول کی ہیڈ ٹیچر' کرسٹین پارکر نے' 'آئی ٹی وی' سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ،وہ سمجھتی ہیں کہ ،ایک سے زائد زبانیں بولنے والے بچے میں دو زبانوں میں سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو ان کی ذہانت کو مزید جلا بخشتی ہے ۔

مسز پارکر نے بتایا کہ، ان کا خاندان کافی عرصے پاکستان میں مقیم رہا ہے جہاں انھوں نے اردو زبان سیکھی تھی اسکول میں ان کے علاوہ 10اسسٹنٹ ٹیچرز ایسی ہیں جنھیں اردو آتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ،نرسری کلاس میں پڑھنے والے بچوں کو ابتداء میں انگریزی سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہےایسے میں کچھ والدین بچوں کو گھر میں انگریزی سکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انگریزی چونکہ ان کی مادری زبان نہیں ہے لہذا بچہ دو زبانوں کو ملا کر بات کرنے لگتا ہے لیکن اساتذہ کے لیے ایسے بچوں کو پڑھانا زیادہ مشکل ہوتا ہے نسبتا ان بچوں کے جنھیں انگریزی زبان بالکل نہیں آتی ہے ۔

مسز پارکر کے مطابق، زیادہ تربچےجلد ہی نئی کلاس کےماحول میں گھل مل جاتے ہیں لیکن ’’کچھ بچوں میں چھ ماہ سے زائد عرصہ خاموشی کا ہوتا ہے مگرایک روز یہ بچےاچانک ہی انگریزی زبان میں باتیں کرنے لگتے ہیں اورہمارے لیے وہ لمحہ بہت خوشی کا ہوتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اسکول میں بچوں کو انگریزی زبان سے قریب لانے کے لیے ایک بڈی( دوست ) پروگرام موجود ہے جس کے تحت بچے ان اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں انگریزی بولنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔

پیٹر بروح کونسل کے مطابق شہر میں 100 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی ایک تہائی تعداد کے لیے انگریزی ایک اضافی زبان ہے ۔