پیرس حملے اور مغرب میں مسلمانوں پر اُن کے ممکنہ اثرات: عمومی جائزہ

  • شہناز نفيس
خالد فاروقی نے پیرس کے شمالی حصے سے براہ راست ٹیلی فون پر پروگرام میں شرکت کی، جہاں فرانسیسی حکام نے کارروائی کرتے ہوئے سات مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ بتایا جاتا ہے کہ دو مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں

جہاں دنیا بھر میں پیرس حملوں کی مذمت اور اُن کے بعد مستقبل کے حوالے سے تشویش کا سلسلہ جاری ہے، وہاں یورپی ممالک اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں پر ان کے ممکنہ اثرات کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔

مبصرین کے مطابق، اِن حملوں نے، اس میں شک نہیں کہ اِن ملکوں میں مقیم مسلمانوں کے لیے کسی حد تک ایک تردد کا سامان پیدا کردیا ہے۔

برسلز میں مقیم ایک معروف پاکستانی نژاد صحافی خالد حمید فاروقی نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے پروگرام، ’راؤنڈ ٹیبل‘ میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک میں پیرس حملوں کے بعد مسلم آبادی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ انتہاپسندانہ نظریے سے قریب تر ہے، اور اُن کے مطابق، اس صورت حال کو دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور تارکین ِوطن خاص کر مسلمانوں کے خلاف مزید منافرت کی فضا پیدا کرسکتے ہیں۔

خالد فاروقی نے پیرس کے شمالی حصے سے براہ راست ٹیلی فون پر پروگرام میں شرکت کی، جہاں فرانسیسی حکام نے کارروائی کرتے ہوئے سات مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ بتایا جاتا ہے کہ دو مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔

پیرس حملوں کے رد عمل میں اِس کارروائی کے دوران ایک مشتبہ خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دھماکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

فرانس کے دارالحکومت میں ان دہشت ناک حملوں کے بعد جن میں تقریباً 129 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے، مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کردی گئی ہیں اور شمالی پیرس کی کارروائی بھی اُسی کا حصہ تھی۔

ساتھ ہی، خبروں کے مطابق، فرانس کے صدر اولاں نے اس سلسلے میں بعض اہم اور دوررس آئینی ترامیم کی بھی تجویز رکھی ہے۔

تاہم، اِن ممکنہ تجاویز کے بارے میں فرانس کے اندر بعض حلقوں نے شک و شبہے کا اظہار کیا ہے۔شہری حقوق کی تنظیمیں اور شہری آزادیوں کے سرگرم کارکن ان ممکنہ آئینی تجاویز پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

خالد فاروقی کا کہنا ہے کہ اِن تنظیموں کو خدشہ ہے کہ ان آئینی تبدیلیوں سے لوگوں کے شہری حقوق متاثر ہوسکتے ہیں۔ اُن کی دلیل ہے کہ پیرس حملوں کے رد عمل میں عجلت میں قدم اٹھانا مناسب نہیں ہوگا۔

خالد فاروقی نے مزید خیال ظاہر کیا کہ اِن حملوں کے بعد پیرس کے آئندہ مقامی انتخابات بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور خدشہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی انتہاپسند پارٹیاں صورت حال سے فائدہ اٹھائیں۔ اس منظرنامے سے مقامی مسلمان آبادی میں بھی بظاہر تشویش پائی جاتی ہے۔

راؤنڈ ٹیبل میں شرکت کرتے ہوئے امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سرگرم کارکن، ظفر طاہر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پیرس کے واقعے کے بعد مسلم کمیونٹی اور مقامی آبادی کے درمیان بظاہر جو بدگمانی جنم لے سکتی ہے اس سے داعش جیسی تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

تاہم، اُنھوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ امریکہ میں آباد مسلمان معاشرے میں گھل مل گئے ہیں اور فرانس کا واقعہ ان کی زندگیوں پر اثرانداز نہیں ہوگا۔

ایک امریکی تجزیہ کار، ڈاکٹر طاہر روحیل نے اظہار خیال کرتے ہوئے، موجودہ حالات میں مسلم کمیونٹی اور اسلامی دنیا کی ذمہ داروں کی جانب توجہ دلائی۔ اُنھوں نے ان عوامل کا بھی ذکر کیا جو نواجوان مسلمانوں کو داعش جیسے دہشت گرد گروپ کی جانب راغب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

تفصیل کے لیے، آڈیو لنک پر کلک کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

RT ISIS POLICY NOV 18TH 2015 SN