بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے پلوامہ حملے سے متعلق ٹوئٹ پر ملک میں نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
راہول گاندھی نے پلوامہ حملوں کے ایک سال پورا ہونے پر جہاں ہلاک ہونے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا وہیں اپنی ٹوئٹ میں اُنہوں نے تین سوالات بھی اُٹھا دیے۔
گزشتہ برس بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارت کی سرحدی فورسز پر ہونے والے حملے میں 40 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی پہلی برسی کے موقع پر جمعے کو راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں سوال اُٹھایا کہ پلوامہ حملے کا سب سے زیادہ فائدہ کس نے اُٹھایا؟
انہوں نے کہا کہ حملے کے بعد ہونے والی تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا؟ اپنی ٹوئٹ میں راہول گاندھی نے تیسرا سوال اُٹھایا کہ سیکیورٹی میں غفلت برتنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے کس وزیر کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا؟
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پلوامہ حملے میں ہلاک ہونے والے جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان نوجوانوں نے ملک و قوم کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
راہول گاندھی کی ٹوئٹ پر ردِ عمل دیتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہول گاندھی لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے ہمدرد ہیں۔
راہول گاندھی کا بیان نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ فوج کے بھی خلاف ہے۔ اس سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھارت کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے۔
بی جے پی کے علاوہ ٹوئٹر پر مختلف صارفین نے راہول گاندھی کی ٹوئٹ پر تنقید کی۔
ایک صارف جے کشن ریڈی نے کہا کہ جب پورا بھارت پلوامہ حملوں میں ہلاک ہونے والے فوجی جوانوں کی قربانی کو یاد کر رہا ہے۔ ایسے میں راہول گاندھی یہ شرمناک سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ان حملوں کا کسے فائدہ ہوا۔
اسوتوش نامی صارف نے سوال اُٹھایا کہ راجیو گاندھی کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوا۔ آپ کی والدہ اُس دن اُن کے ساتھ کیوں نہیں تھی۔ آپ کی بہن نے مبینہ قاتلوں سے کیوں ملاقات کی؟
ایک صارف سواتی چترودی نے بی جے پی کے جانب سے راہول گاندھی کو دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دینے کی مذمت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ راہول گاندھی کو بی جے پی پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنا چاہیے۔
پلوامہ میں 14 فروری کو ہوا کیا تھا؟
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں 14 فروری کی سہ پہر تین بجے ایک فوجی قافلے پر ہونے والے خود کش حملے میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے 40 جوان ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان نواز عسکری تنظیم جیشِ محمد پر عائد کی تھی۔ بعدازاں حملہ آور کی شناخت عادل احمد ڈار کے نام سے ہوئی تھی۔ جو پلوامہ کا ہی رہائشی تھا۔
حملے کے بعد بھارت کی ایئر فورس نے 26 فروری کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ابتداً اس کارروائی میں پاکستانی کشمیر کے علاقے بالا کوٹ میں جہادی کیمپ کو تباہ کرنے اور سیکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ تاہم آزاد ذرائع سے ان دعووں کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی ایئر فورس نے 27 فروری کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر کے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ اس دوران ہونے والی فضائی جھڑپ میں بھارتی فضائیہ کا ایک مگ 21 طیارہ پاکستانی حدود میں گرا۔ جس کے پائلٹ ابھی نندن کو بعدازاں بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔
ان جھڑپوں کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان کھلی جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے۔ تاہم عالمی قوتوں نے دونوں ممالک کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔