بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں طلبہ پر تشدد کے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی شناخت شروع کر دی ہے۔
دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ نقاب پوش افراد کے جامعہ کی حدود میں داخلے اور طلبہ پر تشدد کے واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق دہلی پولیس نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا ہے جس میں ہنگامہ آرائی اور املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس افسر رویندر آریا کے مطابق سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ہونے والے پر تشدد واقعے نے پولیس کو یہ کیس شروع کرنے پر مجبور کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس کی جانب سے اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اتوار کو کچھ نقاب پوش افراد ڈنڈے لے کر ہجوم کی شکل میں داخل ہوئے تھے۔ ملزمان نے یونیورسٹی میں توڑ پھوڑ کی اور طلبہ اور اساتذہ پر تشدد کیا۔
Delhi Police Sources: FIR registered in connection with violence in Jawahar Lal University yesterday. 23 students who were admitted to hospital have been discharged. #JNUViolence pic.twitter.com/eI3g7FOiU5
— ANI (@ANI) January 6, 2020
اس واقعے میں کم از کم 30 طلبہ زخمی ہوئے جنہیں طبّی امداد کے لیے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس لایا گیا۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق زیادہ تر طلبہ کو گہرے زخم آئے ہیں۔
جے این یو کے طلبہ اور بعض فیکلٹی ممبران نے الزام عائد کیا ہے کہ طلبہ پر تشدد کے واقعے میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طلبہ یونین اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پرشاد ملوث ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کی طلبہ تنظیم نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
Delhi: Inside visuals from Jawaharlal Nehru University (JNU) where violence broke out yesterday evening in which more than 30 people were injured. pic.twitter.com/CHjuBtp7FU
— ANI (@ANI) January 6, 2020
طلبہ نے ہجوم کی کچھ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں جس میں کئی نقاب پوش افراد جامعہ کے رہائشی ہال میں داخل ہو رہے ہیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ انجمن کی سربراہ ایشی گھوش بھی زخمیوں میں شامل ہیں۔ پیر کو انہوں نے واقعے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی گھنٹوں قبل نامعلوم افراد کی موجودگی سے متعلق پولیس کو آگاہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
The violence started in #JNU in the evening and which was led by JNUSU President Aishi Ghosh, She is visible with the masked men and immediately fake screenshots were distributed by Leftists and Journalists like @BDUTT to show ABVP as the perpetrators of Attack!#LeftAttacksJNU pic.twitter.com/0ETSz6TDKh
— Saurabh Singh 🇮🇳 (@SaurabhSingh) January 6, 2020
مقامی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتوار کو دن میں تقریباً ڈھائی بجے کے وقت انہوں نے پولیس سے رابطہ کیا اور بتایا کہ کچھ نامعلوم افراد کیمپس میں داخل ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ہم خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دیر بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے کچھ ارکان پر امن مظاہرہ کرنے لگے لیکن کچھ ہی دیر بعد یہاں نقاب پوش افراد نے حملہ کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان پر لوہے کی راڈ سے حملہ کیا گیا۔
This type of vandalism and attack in students hostel is criminal and intolerable. Whoever are the attakers, should be dealt with heavy hand . I am sure @DelhiPolice will be taking appropriate action .#JNUAttack pic.twitter.com/A7YLuwS4LY
— Pankaj Nain IPS (@ipspankajnain) January 5, 2020
طلبہ پر تشدد کے واقعے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے دہلی پولیس اور حکمراں جماعت پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
ماہر قانون اور دہلی پولیس کے وکیل راہول مہرا نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ جے این یو میں ہونے والے حملے کو روکنے کے لیے کوئی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا۔
انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ غنڈوں کی جے این یو کیمپس میں داخل ہونے، پرتشدد کارروائیوں سے معصوم طلبہ کو زخمی کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر پھر چلے جانے کی ویڈیوز دیکھ کر ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔
Mumbai: Actor Sushant Singh also reaches Gateway of India where students are protesting against yesterday%27s #JNUViolence pic.twitter.com/k0NEJZqgaJ
— ANI (@ANI) January 6, 2020
طلبہ پر حملے کے بعد بھارت میں جاری مظاہروں کی شدت میں دوبارہ اضافہ ہو گیا ہے۔
جے این یو کے طلبہ اور اساتذہ پر اتوار کو ہونے والے تشدد کے خلاف بھارت کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ممبئی، کولکتہ، حیدر آباد کے ساتھ کرناٹک اور مغربی بنگال میں بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔
Students of Delhi University protest against yesterday%27s violent attack in Jawaharlal Nehru University (JNU). #JNUattack pic.twitter.com/SQqPrDzhyD
— Youth Congress (@IYC) January 6, 2020
خیال رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف گزشتہ ماہ سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ نئی دہلی سمیت کئی شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
Karnataka: Protest held at Town Hall in Bengaluru against yesterday%27s violence in Jawaharlal Nehru University (JNU). pic.twitter.com/hQvo086yAo
— ANI (@ANI) January 6, 2020
شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ متنازع قانون کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا مرکز اسی یونیورسٹی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ جے این یو کے طلبہ مظاہروں میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمیں بھی پڑھتے دکھائی دیے ہیں۔
Kolkata: Students of Jadavpur University protest against yesterday%27s violence in Jawaharlal Nehru University (JNU). #WestBengal pic.twitter.com/5tPUtrKbN6
— ANI (@ANI) January 6, 2020