پوپ فرینسس نے منگل کے روز رومن کیتھولک چرچ میں بنیادی تبدیلیوں کا اعلان کیا، جب کہ شادی کے بندھن کے خاتمے یا منسوخی کا عمل نہ صرف گنجلک بلکہ بے انتہا مہنگا معاملہ تصور کیا جاتا تھا۔
پوپ نے دنیا بھر کے بشپس کو اختیار تفویض کیا ہے کہ وہ شادی کی منسوخی کی متعدد درخواستوں کو اپنی سطح پر فوری طور پر فیصل کریں؛ اور مروجہ جائزے کے طویل عمل کو مختصر کریں، جیسا کہ ’ڈائی سیسن ٹربیونل‘ کا قیام۔ پوپ کے ایک مشیر نے بتایا ہے کہ زیادہ تر معاملات کو 45 روز کے اندر اندر طے کیا جائے، جب کہ پوپ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ کلیسا کے ضابطوں کے تحت وہ جوڑے جو شادہ برقرار نہیں رکھنا چاہتے اُن سے کوئی فی وصول نہ کی جائے۔
پوپ فرینسس نے بشپس سے کہا کہ وہ طلاق یافتہ جوڑوں کو مزید معاونت فراہم کریں، حالانکہ اُنھوں نے روایتی کیتھولک خیالات کا اعادہ کیا، جس میں شادی ایک مستقل ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔
وٹیکن عدالت کے سربراہ نے شادی کی منسوخی کے ضوابط کے بارے میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ پوپ فرینسس کے احکامات 18 ویں صدی عیسوی سے لے کر اب تک شادی کے ضابطوں میں واضح تبدیلیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ریورنڈ جیمس بریزکے کے بقول، ’اس ضمن میں لاکھوں جوڑوں کی درخواستوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، پوپ اپنے عہدے کی ذمہ داری کے تقدس کے عین مطابق حل پیش کر رہے ہیں، جن جوڑوں کو شادی کا بندھن ٹوٹنے کی اذیت اور پریشانی لاحق ہے‘۔
بریزکے امریکہ میں بوسٹن کالج میں مذہبی اخلاقیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ حضرت عیسیٰ مسیح کے اقدار کی اعلیٰ روایات کے رُکن ہیں، جیسا کہ پوپ فرینسس خود۔
اُن کے حوالے سے منگل کے روز رائٹرز نے وٹیکن سٹی سے یہ خبر جاری کی ہے۔
حالانکہ کیتھولک کلیسا طلاق کو تسلیم نہیں کرتے، جوڑے علیحدگی اختیار کرتے رہے ہیں، جسے باضابطہ طور پر، کچھ حالات میں، ’منسوخی کا حکم‘ کہا جاتا ہے۔
ایسی اپیلوں میں عام طور پر دعویٰ کیا جاتا ہےکہ دراصل چرچ کے قانون کی رو سے، عملی طور پر یہ شادی سرے سے ہوئی ہی نہیں، کیونکہ ایک یا دونوں فریق اپنی رضا و رغبت سے، نفسیاتی بلوغت کے ساتھ یا بچوں کو جنم دینے کی خواہش کے اظہار کے لحاظ سے، شادی کے بندھن میں داخل ہوئے ہی نہیں۔
جب اس قسم کی منسوخی کا باضابطہ اجازت نامہ دیا جائے، چرچ کی یہی رائے ہوتی ہے کہ صحیح معنوں میں یہ شادی تھی ہی نہیں۔ اور یوں، کیتھولک کلیسا میں ایسے سابقہ جوڑے دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔
برعکس اس کے، شادی منسوخ کرنے والے کیتھولک، جو چرچ کے خلاف عدالت سے شادی کی منسوخی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، روایتی طور پر ایسے معاملے کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
روایتی طور پر طلاق حاصل کرنے والے متعدد کیتھولک حضرات کو مذہبی رتبوں کے اہل نہیں گردانہ جاتا، یہاں تک کہ اگر کوئی دائرے میں داخل ہو بھی جائے تو بشپس اُنھیں باہر نکال دیتے ہیں۔ تاہم، پوپ نے چرچ کے منتظمین سے کہا ہے کہ وہ ایسے معاملات کو رحمدلی کے تقاضوں کے تحت طے کریں، جن میں ملوث حضرات توبہ تائب ہوں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف اور کفارہ ادا کریں۔