گنگا کا پانی گدلا ہی نہیں، زہریلا بھی ہے

دریائے گنکا نے کئی سلطنتوں اور حکومتوں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ یہ دریا لگ بھگ دو ہزار سات سو کلو میٹر طویل ہے۔

دریائے گنگا ہندو مت کے پیروکاروں کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دریا صنعتی، زرعی اور سیاسی اعتبار سے اہم ہونے کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔
 

ہندو مت کے پیروکاروں کے لیے گنگا کا پانی انتہائی مقدس ہے۔ ان کے عقائد کے مطابق گنگا میں غسل کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔

دریائے گنگا کی یاترا پر آنے والے زیادہ تر ہندو عقیدت مند  نہ صرف گنگا کا پانی خود پیتے ہیں بلکہ واپسی پر اپنے اہلِ خانہ، رشتے داروں اور دوستوں کے لیے بھی تحفے کے طور پر لے جاتے ہیں۔

بھارت کے کئی اہم شہر گنگا کے کنارے پر آباد ہیں جن میں سے ہندوؤں کا ایک مقدس شہر وارانسی بھی ہے، جسے بنارس اور کاشی بھی کہا جاتا ہے۔  وارانسی کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ ہندو عقیدت مند اپنے مرودوں کی راکھ دریائے گنگا میں بہانے اور ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے اس شہر کا انتخاب کرتے ہیں۔

ہندوؤں کے کئی تہوار اور مذہبی رسومات کی ادائیگی دریائے گنگا کے پانیوں اور کناروں پر ہوتی ہیں۔ وہ بہت خوشی کے ساتھ  یہاں کا سفر کرتے ہیں۔ لیکن اب صنعتی فضلے، فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے کیمیکلز، گھروں سے آنے والے استعمال شدہ پانی نے دریا میں شامل ہو کر گنگا کو بے حد آلودہ کر دیا ہے۔

دریائے گنگا ہندو عقیدت مندوں کے لیے بے حد مقدس سہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گنگا میں ہر روز لاکھوں گیلن گندا پانی، کچرا، کیڑے مار زرعی ادویات اور انسانی لاشوں کی راکھ شامل ہو  رہی ہے۔

ہندو عقیدت مند دریائے گنگا کے کنارے 'مکر سنکرانتی' نامی ایک قدیم تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار نیپال، بھارت اور بنگلہ دیش میں موسم سرما کے اختتام پر ثقافتی انداز میں منایا جاتا ہے۔ یہ ایک موسمی تہوار ہے، جس کا تعلق موسم بہار کے آغاز سے ہے۔ 
 

گنگا سے بڑا شمشان گھاٹ بھی بھارت میں بظاہر کہیں اور نہیں۔ یہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مردے جلائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ لکڑی مہنگی ہونے کی وجہ سے نعشوں کو پوری طرح راکھ میں تبدیل کیے بغیر ہی گنگا میں بہا دیتے ہیں۔

 ہر روز بے شمار خواتین دریائے گنگا کے کنارے  کپڑے دھوتی ہیں اور دریا کا پانی برتنوں میں بھر کر اپنے ساتھ بھی لے جاتی ہیں۔

گنگا ماہی گیروں کا ذریعۂ معاش بھی ہے۔ بھارت کا ایک اہم شہر کولکتہ دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے اور ماہی گیری اس شہر کی ایک بڑی صنعت ہے۔ اس صنعت کے لیے مچھلیاں دریائے گنگا سے ہی پکڑی جاتی ہیں۔
 

 

دُرگا پوجا ہندوؤں کا ایک اور بڑا تہوار ہے، جس میں دُرگا دیوی کی پوجا کی جاتی ہے اور اس کے لاکھوں بت رات کے وقت گنگا میں بہائے جاتے ہیں۔ بھارت کے کئی دیگر تہواروں کے موقع پر بھی دیوی دیوتاؤں کے بت گنگا میں بہا دیے جاتے ہیں۔

بھارت اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ہندو آباد ہیں، اگر وہ اپنے عزیر و اقارب کی چتائیں گنگا کنارے نذر آتش نہ کر سکیں تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ان کی 'استھیاں' یعنی مردوں کی راکھ لازماً دریائے گنگا میں جا کر بہائیں۔ 

گنگا کے کناروں پر آوارہ جانوروں کی بھی بہتات ہے کیوں کہ اکثر انہیں یہاں خوراک مل جاتی ہے۔ لوگ اپنے پالتو جانوروں کو بھی نہلانے کی غرض سے یہاں لاتے ہیں۔

وارانسی شہر میں دریائے گنگا کے کنارے دھوبیوں کا سب سے بڑا گھاٹ موجود ہے جہاں ہر روز بے شمار کپڑے دھوئے اور سکھائے جاتے ہیں۔ جس سے صابن کا پانی اور کپڑوں کا میل بھی دریائے گنگا کا حصہ بن جاتا ہے۔