موسمیاتی تبدیلی اجلاس، 80 سربراہانِ مملکت کی شرکت متوقع

غریب اور کمزور ملکوں کا کہنا ہے کہ صنعتی ممالک ہی آلودہ گیسوں کے اخراج کے ذمے دار ہیں، اُنہی کو معاوضے کی رقوم فراہم کرنی چاہئیں۔

عالمی موسمیاتی تبدیلی کے سمجھوتے کا مسودہ تیار کرنے کے لیے، تقریباً 80 ملکوں کے سربراہان 30 نومبر سے پیرس کے 12 روزہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ موسیماتی تبدیلی کا یہ نیا معاہدہ ’کیوٹو پروٹوکول‘ کی جگہ لے گا، جس کی میعاد 2012ء میں ختم ہوگئی تھی۔

حکومتی سربراہان کے علاوہ اجلاس میں 25000 سے زائد مذاکرات کار، غیر سرکاری تنظیموں اور متمدن معاشرے سے تعلق رکھنے والے نمائندے شریک ہوں گے۔

مذاکرات کار 55 صفحات پر مبنی دستاویز کو آخری شکل دیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کے بگاڑ کو درست کرنے کی کاوشوں کے حالے سے امیر اور غریب ملک مقسم سوچ کے حامل ہیں، جو یہ فیصلہ نہیں کر پائیں آیا درکار رقوم کہاں سے دستیاب ہوں گی۔

نسبتاً غریب اور کمزور ملکوں کا کہنا ہے کہ صنعتی ممالک ہی آلودہ گیسوں کے اخراج کے ذمے دار ہیں، اُنہی کو معاوضے کی رقوم فراہم کرنی چاہئیں۔ امیر ملکوں کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں تمام فریقوں کو آگے بڑھ کر مدد کرنی ہوگی، خاص طور پر چین، بھارت اور برازیل کو اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔

چھ برس قبل، کوپن ہیگن میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے اجلاس میں ترقی یافتہ ملکوں نے نجی اور سرکاری سطح پر 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا عہد کیا تھا، تاکہ غریب ملک موسمیاتی تبدیلی کے معاملے سے نمٹنے کے کام میں شریک ہوں۔

ڈیوڈ واسکو ’ورلڈ رسورسز انسٹی ٹیوٹ‘ میں بین الاقوامی موسمات کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اِن فرائض کو بجا لانے کے لیے غیرمعمولی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنوینشن کے انتظامی سکریٹری، کرسٹینا فگرز نے ان خیالات سے اتفاق کیا۔ ادارے سے تعلق رکھنے والے 195 رُکن ملک سنہ 1992 سے ہر سال اجلاس کرتے آئے ہیں، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنا تھا۔

یہ اجلاس 30 نومبر سے 11 دسمبر تک جاری رہے گا۔