پاکستان میں شدت پسند گروپ نیا نام اپنا کر قابلِ قبول بن جاتے ہیں

فائل

پاکستان کے عام انتخابات اگست کے وسط سے قبل کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔ اور، مبصرین کا کہنا ہے کہ قومی سیاست میں داخل ہونے کی غرض سے کئی قدامت پسند گروپ نیا روپ دھارنے کے چکر میں ہیں

پاکستان میں اگر کوئی اپنا نام تبدیل کرائے تو اُسے ایک دشوار اور طویل قانونی ضابطے سے گزرنا پڑتا ہے، جس کے لیے تفصیلی کاغذی کارروائی درکار ہوتی ہے۔

لیکن حیران کُن طور پر شدت پسند گروہوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا، جنھیں حکومت کالعدم قرار دے چکی ہوتی ہے۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران، متعدد گروپ جن پر دہشت گرد حملوں کا الزام تھا، کسی انضباطی کارروائی کے خوف کے بغیر دھڑلے کے ساتھ اپنا نام تبدیل کرلیتے ہیں۔

عالم دین حافظ سعید جنھیں 2008ء کے ممبئی حملوں کا سرغنہ ہونے کے الزام میں امریکہ دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے، جس حملے میں 160 افراد ہلاک ہوئے تھے؛ شاید وہ سب سے نمایاں راہنما ہیں جن پر یہ حربہ استعمال کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔

سعید لاہور میں آزاد پھرتے ہیں، حالانکہ سنہ 2012سے وہ اشتہاری ہیں، جن کی اطلاع دینے پر امریکہ نےایک کروڑ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔

اقوام متحدہ، برطانیہ، روس اور یورپی یونین نے اُن کے ’لشکر طیبہ‘ گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے پاکستان میں لشکر طیبہ پر لگی پابندی سے بچنے کی راہ تلاش کرلی ہے، وہ یہ کہ اُنھوں نے کئی دیگر تنظیمیں بنا ڈالی ہیں، جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ محض اصل دہشت گرد گروپ کا دوسرا روپ ہیں۔

لشکر طیبہ کو سنہ 1980 کی دہائی میں تشکیل دیا گیا، اس نصب العین کے ساتھ کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر کو آزاد کرایا جائے گا اور بالآخر اسے پاکستان کے ساتھ ضم کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے 2002ء میں لشکر طیبہ پر پابندی عائد کردی۔

بعدازاں، سعید نے لشکر طیبہ کو جماعت الدعویٰ اور اپنے ذیلی خیراتی دھڑے ’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘ کا نام بدل دیا۔ دونوں ’جماعت الدعویٰ‘ اور ’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘ امریکہ اور اقوام متحدہ کی ’دہشت گرد واچ لسٹ‘ میں شامل ہیں۔

کئی برسوں تک متعدد دہشت گرد دھڑے منظر عام پر آنے کے بعد، علاقائی ماہرین حکومت کی جانب سے ایسے گروہوں کو احتساب کے کٹہرے میں نہ لانے کے بارے میں سوال اٹھانے لگے ہیں۔

سکیورٹی ماہر، زاہد حسین نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’قانون کی رو سے کالعدم تنظیموں کو اجازت نہیں کہ وہ نام تبدیل کرکے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’لیکن، پاکستان میں کام کرنے والی تقریباً تمام کالعدم تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک یا حکومت اُنھیں روکنے میں کوئی خاص سنجیدہ نہیں۔ بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں وہ محض اُنھیں دہشت گرد واچ لسٹ میں شامل کر لیتے ہیں‘‘۔

بقول اُن کے ’’ہمارے ہاں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ ’جماعت الدعویٰ‘، ’جیشِ محمد‘ اور ’سپاہ صحابہ پاکستان‘۔ ’جیش محمد‘ انتہاپسند گروپ ہے جو بھارتی زیر انتظام کشمیر کی آزادی کا حامی ہے، جسے 2002ء میں کالعدم قرار دیا گیا، جو ’تحریک الفرقان‘ کے نئے نام سے سامنے آچکا ہے۔

’حرکت المجاہدین‘، جسے اقوام متحدہ نے دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا، 1993ء میں ’حرکت الانصار‘ کے نام سے نمودار ہوا۔ اُس کے سربراہ فضل الرحمٰن خلیل ہیں جو کھلے عام پاکستان کے دارالحکومت میں مقیم ہیں۔

سپاہ صحابہ پاکستان‘ ایک قدامت پسند گروپ ہے، جس پر ملک کی اقلیتی، شیعہ آبادی پر مہلک حملوں کا الزام ہے، جس پر حکومت کئی بار بندش ڈال چکی ہے۔ تاہم، یہ ’ملت اسلامیہ پاکستان‘ اور ’اہل سنت والجماعت‘ کے نام سے پھر نمودار ہوتا رہا ہے۔

زیر نظر مثالوں کے باوجود، پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور، طلال چوہدری کہتے ہیں کہ کسی طور پر کسی بھی کالعدم دہشت گرد گروپ کو کام کی اجازت نہیں دی جاتی۔

چوہدری نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’تازہ ترین مثال ’ملی مسلم لیگ‘ کی ہے۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے گذشتہ سال ملک کی انتخابی کمیشن کو ایک مراسلہ روانہ کیا جس میں ’ملی مسلم لیگ‘ کو ’جماعت الدعویٰ‘ کا نیا روپ قرار دیا گیا، اور انتخابی ادارے سے کہا گیا کہ اس کا اندراج نہیں کیا جانا چاہیئے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’بیسیوں ایسی تنظیمیں ہیں جو پاکستان کی دہشت گرد فہرست میں شامل ہیں، تاکہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ وہ کسی طو ر پر کام نہ کر سکیں‘‘۔

اس کے برعکس، بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والے متعدد تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت دانستہ طور پر انہیں نظرانداز کرتی ہے، چونکہ حکام سمجھتے ہیں کہ ایک لحاظ سے ان کا وجود خطے میں حکومت کے مفادات کو بڑھاوا دینے کا باعث ہے۔

مائیکل کوگلمین، واشنگٹن میں قائم ’ولسن سینٹر‘ میں ’ایشیا پروگرام‘ کے معاون سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان یہ استعداد رکھتا ہے کہ وہ اِن گروپوں کو نام تبدیل کرنے اور آزادانہ سرگرمیوں سے روکے، لیکن وہ سرے سے یہ خواہش ہی نہیں رکھتا‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ اس لیے ہے کہ پاکستان کے خیال میں اِن گروپوں کو سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینے میں اُن ہی کے مفادات مضمر ہیں، تاکہ وہ مختلف ناموں سے کام کرتے رہیں، ناکہ اُن کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جائے‘‘۔

جب کہ یہ مسئلہ نیا نہیں، یہ بدتر ضرور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان کے عام انتخابات اگست کے وسط سے قبل کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔ اور، مبصرین کا کہنا ہے کہ قومی سیاست میں داخل ہونے کی غرض سے کئی قدامت پسند گروپ نیا روپ دھارنے کے چکر میں ہیں۔

’ملی مسلم لیگ‘ اگست 2017ء میں قائم ہوئی، جسے ’جماعت الدعویٰ‘ کا سیاسی دھڑا خیال کیا جاتا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ سال اس تنظیم پر بندش عائد کی، اور اس کی قیادت کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا۔

اسی طرح سے، ’اہل سنت والجماعت‘، جو ’سپاہ صحابہ پاکستان‘ کا نقش ہے، آئندہ عام انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سیاسی ماہرین شدت پسندی سے سیاسی جماعت کے روپ دھارنے کے عمل کو چونکا دینے والا معاملہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں تب تک قومی سیاسی دھارے کا حصہ نہیں بن سکتیں جب تک اُنہیں حکام کی آشیر باد حاصل نہ ہو۔

دفاعی تجزیہ کار احمد رشید نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’پاکستانی ریاست کالعدم تنظیموں کی مدد کرتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے وہ کرتی چلی آئی ہے۔ یہ کھیل اب بند ہوجانا چاہیئے اور حکومت کو اس بارے میں اظہار کردہ ارادوں کو عملی جامہ پہنانا چاہیئے، اور ان گروہوں کو غیر مسلح کرنے میں سچائی کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنا چاہیئے اور اُنھیں سیاست میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے‘‘۔

اگر یہ انتخات لڑتی ہیں، تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ شدت پسند جماعتیں ووٹ لینے میں کامیاب ہوں گی۔