اولمپکس: پاکستانی اتھلیٹ کا خواب

  • ج

رابعہ عاشق

تیاری کے لیے انتہائی کم وقت ملنے کے باوجود رابعہ کے سرپرنمایاں کارکردگی دکھانے کی دھن سوار ہے
قومی مقابلوں میں سونے کے تمغے جیتنے کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والی 20 سالہ اتھلیٹ رابعہ عاشق کو لندن اولمپکس میں شرکت کی خبر محض دوماہ قبل اُس وقت ملی جب وائلڈ کارڈ پر پاکستان کے چارکھلاڑیوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

رابعہ عاشق



یہ دعوت نامہ ایسے ملکوں کو دیا جاتا ہے جو باضابطہ عمل کے ذریعے اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکتے۔

پاکستانی اتھلیٹ رابعہ عاشق 800 میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے کےلیے لندن جارہی ہیں اورہرکھلاڑی کی طرح وہ بھی اولمپکس میں حصہ لینے کا خواب دیکھتی رہیں جو بالآخر پورا ہونے جارہا ہے۔

پاکستانی اتھلیٹ رابعہ پریکٹس میں مصروف


لیکن تیاری کے لیے انتہائی کم وقت ملنے کے باوجود رابعہ کے سرپرنمایاں کارکردگی دکھانے کی دھن سوار ہے اوروہ اسلام آباد کے جناح اسٹیڈیم میں سخت گرمی میں باقاعدگی سے صبح وشام دوڑنے کی مشق کررہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں۔’’دو ماہ پہلے ٹریننگ کے لیے کیمپ ملا ہے ہمیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں چھ ماہ پہلے کہیں باہر ٹریننگ کے لیے بھیجیں ہم باہر کے لوگوں کے ساتھ ٹریننگ کریں ہمیں پتا چلے کہ وہ کیسے تربیت حاصل کرتے ہیں لیکن یہ بھی اچھا ہے کہ ہمیں یہ کیمپ دیا ہم اچھا پرفارم کررہے ہیں۔‘‘

کسی پاکستانی اتھلیٹ کے لیے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن رابعہ اس دباؤ سے بے نیاز باقاعدگی سے اپنی پریکٹس پر توجہ دیتے ہوئے بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے مرد اتھلیٹس کے ساتھ مل کرمشق کرتی ہیں۔

لاہور کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی ربعہ سرکاری ادارے واپڈا میں ملازمت کرکے خاندان کا پیٹ پالنے میں بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔ انھوں نے کھیلوں کی دنیا میں ایک اچھی سائیکلسٹ کے طور پر قدم رکھا اور2007ء میں کراچی میں قومی کھیلوں میں انھوں نے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے سونے کا تمغہ بھی جیتا۔ مگررابعہ کہتی ہیں کہ واپڈا کے کوچ نے انھیں اتھلیٹ بننے کا مشورہ دیا جو ان کے لیے یقیناً مفید ثابت ہوا۔

’’کوچ میرے گھر والوں سے ملے لیکن میرے ابو نے اجازت نہیں دی لیکن امی نے کہا کہ اس کا شوق ہے تو موقع دینا چاہیے۔ پھر میرے کوچ گھر سے مجھے ہاسٹل لے کر آئے یہاں میں نے ان کے ساتھ ٹریننگ شروع کی۔ مجھے اتھلیٹکس کا بالکل پتا نہیں تھا۔۔۔پھر میں پاکستان کی سلور میڈلسٹ بھی دس ہزار میٹر میں۔‘‘

رابعہ پرامید ہیں کہ انھیں دیکھ کر پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خواتین کھیلوں کی طرف مائل ہوں گی۔ ’’والدین کو یہی کہوں گی کہ بچیوں کو پڑھنے دیں انھیں اسپورٹس میں آنے دیں ان کے اندر بھی شوق اور جذبہ پیدا ہو جیسے ہم پاکستان کی نمائندگی کرنے باہر جارہے ہیں۔‘‘

گزشتہ سال لاہور میں ہونے والی قومی چیمپیئن شپ میں رابعہ نے پانچ ایونٹس میں گولڈ میڈل جیت کر تہلکہ مچا دیا تھا جبکہ دس ہزار میٹر کی دوڑ میں انھوں نے ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ وہ 2011 ء میں جاپان میں ایشیئن چیمپیئن شپ اور دو ماہ قبل ترکی میں ورلڈ انڈور اتھلیٹکس میں حصہ لے چکی ہیں۔