شدید دھند اور اسموگ سے لوگوں کی زندگی اجیرن

لاہور میں اسموگ کی وجہ سے زندگی متاثر

موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے جب کہ دھند کے باعث شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

پنجاب سمیت پاکستان کے مختلف اضلاع میں صبح کے وقت شدید دھند اور اسموگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ اسموگ کی وجہ سے اب تک ہونے والے ٹریفک حادثات میں6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں.

موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے جب کہ دھند کے باعث شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں اور گرمی کے بعد سردی کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں اسموگ اور دھند کا راج بڑھ جاتا ہے۔ ہر سال اسموگ کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں سانس لینے میں دشواری، گلے میں تکلیف اورآنکھوں کا سوجنا، جلنا اورآنکھوں سے پانی نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔

اسموگ کی وجہ سے پنجاب بھر میں کوڑا جلانے، فصلوں کے مڈھ کو آگ لگانے اور اینٹوں کے بھٹے میں پرانے ٹائر جلانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ لیکن اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور ہر طرف لوگ چہروں پر ماسک چڑھائے نظر آتے ہیں،

اسموگ کے اثرات اور علاج کے حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر وسیم خواجہ کہتے ہیں کہ اسموگ دراصل آلودگی کی ایک قسم ہے جو دھند اور دھوئیں کی آمیزش سے بنتی ہے۔ لفظ اسموگ بیسویں صدی کی ابتدا میں لندن میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ دو الفاظ اسموک اور فوگ کا مرکب ہے۔ اسموگ ہوا میں موجود نائٹروجن آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ ،کاربن مونوآکسائیڈ، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں، مٹی اور آگ کے دھوئیں کے مرکب سےبنتی ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانوں کو شدید نقصان پہنچانے والی اسموگ سے محفوظ رہنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر لازم ہیں۔ اگر فضا میں اسموگ موجود ہے تو کوشش کریں کہ کم سے کم باہر نکلیں اور وہ افراد جو سائیکلنگ یا جوگنگ کرتے ہیں انہیں چاہئیے کہ اپنی ان سرگرمیوں کو کچھ دنوں کے لیے موخر کردیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو شام کے وقت باہر نکلیں جب فضا میں اسموگ کی مقدار کم ہوتی ہے،

ماہر موسمیات اور محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حنیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سب سے پہلے تو اسموگ اور دھوئیں میں فرق کرنا لازمی ہے۔ کچھ لوگ اسموگ کو معمولی دھواں سمجھ کر نظرا نداز کردیتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اسموگ اور دھواں دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ اسموگ صرف آلودگی اور گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے نہیں بنتی بلکہ ہریالی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے بھی اسموگ وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی کوشش کریں۔ درخت اسموگ کو بننے سے روکتے ہیں۔

پاکستان میں آنے والی اسموگ بہت غیر معمولی ہے۔ یہ پہلے بھی ہوتی تھی لیکن محدود علاقوں میں ہوتی تھی۔ ماضی میں اسموگ صرف چین اور بھارت میں دیکھنے میں آتی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے میدانی علاقوں میں شدت سے آرہی ہے،

ڈاکٹر حنیف کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں آنے والی اسموگ کی شدت ماضی کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ بارشوں کا نہ ہونا ہے۔ موجودہ خشک سالی چھ ہفتوں سے زائد کی ہوگئی ہے اوررواں ماہ بھی بارش کا امکان نہیں ہے۔ ایک ہلکی بارش کی توقع تو ہے لیکن وہ ملک کے بالائی علاقوں تک محدود ہوگی۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں بارش کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت اس کی شدت سب سے زیادہ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں ہے۔ اگر ہلکی بارش ہوئی تو بھی اس کی شدت میں کمی ہوجائے گی۔

ملک میں بارش کی کمی کے حوالے سے ڈاکٹر حنیف کا کہنا تھا کہ بارشوں کی کمی کی وجہ اور اسموگ کی وجہ سے اس وقت گندم کی کاشت نہیں ہورہی کیونکہ اسموگ کی وجہ سے اب تک چاول کی کٹائی مکمل نہیں ہوئی اور بارانی علاقوں میں گندم کی کاشت متاثر ہورہی ہے۔