معاشرے کے جس طبقے کو اس اسکول میں تعلیم دی جارہی ہے ان کے ہاں تعلیم کا تصور ہی شاید نہیں پایا جاتا۔
اسلام آباد —
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں حکومتی سطح پر تعلیم کے لیے سالانہ مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم مختص کیا جاتا ہے، علم کا حصول ہر بچے کے لیے خاصا مشکل ہے۔
ملک میں نجی تعلیمی ادارے بھی درس و تدریس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ ایک نسبتاً مہنگا ذریعہ تعلیم ہے۔
ایسے میں پسماندہ ترین طبقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھانے والے لوگ بھی معاشرے میں نظر آتے ہیں اور ان ہی میں سے ایک پنجاب کے شہر دیپالپور سے تعلق رکھنے والے رانا محمد عمران ہیں۔
تین سال قبل انھوں نے اپنے علاقے کے قریب واقع چھونپڑیوں میں زندگی بسر کرنے والے ایسے خاندان جن کی گزر اوقات کوڑے ڈھیروں سے ردی کاغذ اور دیگر کچرا اٹھانے سے وابستہ تھی، کے بچوں کو تعلیم دینے کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رانا عمران نے بتایا کہ شروع میں انھیں جھگیوں میں رہنے والے والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں بہت دشواری ہوئی لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔
"شروع میں دس والدین راضی ہوئے پھر کیونکہ یہ بچے اپنے والدین کے لیے روزی روٹی کا ذریعہ تھے یہ کاغذ چنتے تھے اور والدین کی دہاڑی میں شریک ہوتے تو بڑی مشکل پیش آئی۔ پھر ہم نے والدین سے کہا ہم ان کے بچوں کو کچھ وقت کے لیے ہمارے پاس بھیجیں ہم انھیں ناشتہ بھی دیں گے کھانا بھی دیں گے اور مفت تعلیم بھی دیں گے۔"
کرسٹل ویو فاؤنڈیشن کے تحت ان بچوں کے لیے اسکول کا قیام بھی اپنی جگہ ایک مشکل مرحلہ تھا جسے طے کرنے کے لیے رانا عمران کو خاصی تگ و دو کرنا پڑی۔
"لوگوں سے ادھار لیا، دوستوں سے کچھ رقم لی اور کرائے کی ایک عمارت میں اسکول کا بندوبست کیا، پھر کتابیں لائے کچھ اسکولوں سے پرانی کتابیں لیں، کاپیاں پنسلیں اور اسی طرح ان کے لیے یونیفارم اور سردیوں میں ان کے لیے سویٹر اور ٹوپی کا بھی انتظام کیا گیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ دس بچوں سے شروع ہونے والے اسکول میں اب پہلی سے دسویں جماعت تک 180 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
دیپالپور کے اسسٹنٹ کمشنر آصف رؤف خان بھی اس غیر روایتی اسکول اور رانا عمران کی کاوش سے خاصے متاثر دکھائی دیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے نہایت حیران کن بات تھی کہ معاشرے کے جس طبقے کو اس اسکول میں تعلیم دی جارہی ہے ان کے ہاں اس کا تصور ہی نہیں۔
"مختلف چیزیں دیکھنے میں آئیں یہاں۔۔۔ اس طبقے کا تعلیم کی طرف تو کوئی رجحان ہی نہیں ان کا بڑا مسئلہ تو روٹی ہے تو ان بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا میرے نزدیک ایک بڑا کمال ہے۔"
انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب اور مرکز کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ اس طرح کے لوگوں کے لیے الگ بنیادی اسکول بھی بنائے جائیں۔
رانا عمران پرعزم ہیں کہ وہ کاغذ چننے اور چھونپڑیوں میں بسیرا کرنے والے ان بچوں کو معاشرے کا ایک اہم اور فعال شہری بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
"ان بچوں کو عام پر کوڑے سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے لیکن میں انھیں پڑھا لکھا کر کرسٹل بناؤں گا، ہیرا بناؤں گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے مخلتف شہروں میں بھی انھوں نے ایسی ٹیمیں تشکیل دے رکھیں ہیں جو اس منصوبے کو آگے لے کر چلیں گی لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے تاحال یہ قابل عمل نہیں ہوسکا ہے۔
ملک میں نجی تعلیمی ادارے بھی درس و تدریس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ ایک نسبتاً مہنگا ذریعہ تعلیم ہے۔
ایسے میں پسماندہ ترین طبقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھانے والے لوگ بھی معاشرے میں نظر آتے ہیں اور ان ہی میں سے ایک پنجاب کے شہر دیپالپور سے تعلق رکھنے والے رانا محمد عمران ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تین سال قبل انھوں نے اپنے علاقے کے قریب واقع چھونپڑیوں میں زندگی بسر کرنے والے ایسے خاندان جن کی گزر اوقات کوڑے ڈھیروں سے ردی کاغذ اور دیگر کچرا اٹھانے سے وابستہ تھی، کے بچوں کو تعلیم دینے کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رانا عمران نے بتایا کہ شروع میں انھیں جھگیوں میں رہنے والے والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں بہت دشواری ہوئی لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔
"شروع میں دس والدین راضی ہوئے پھر کیونکہ یہ بچے اپنے والدین کے لیے روزی روٹی کا ذریعہ تھے یہ کاغذ چنتے تھے اور والدین کی دہاڑی میں شریک ہوتے تو بڑی مشکل پیش آئی۔ پھر ہم نے والدین سے کہا ہم ان کے بچوں کو کچھ وقت کے لیے ہمارے پاس بھیجیں ہم انھیں ناشتہ بھی دیں گے کھانا بھی دیں گے اور مفت تعلیم بھی دیں گے۔"
کرسٹل ویو فاؤنڈیشن کے تحت ان بچوں کے لیے اسکول کا قیام بھی اپنی جگہ ایک مشکل مرحلہ تھا جسے طے کرنے کے لیے رانا عمران کو خاصی تگ و دو کرنا پڑی۔
"لوگوں سے ادھار لیا، دوستوں سے کچھ رقم لی اور کرائے کی ایک عمارت میں اسکول کا بندوبست کیا، پھر کتابیں لائے کچھ اسکولوں سے پرانی کتابیں لیں، کاپیاں پنسلیں اور اسی طرح ان کے لیے یونیفارم اور سردیوں میں ان کے لیے سویٹر اور ٹوپی کا بھی انتظام کیا گیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ دس بچوں سے شروع ہونے والے اسکول میں اب پہلی سے دسویں جماعت تک 180 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
دیپالپور کے اسسٹنٹ کمشنر آصف رؤف خان بھی اس غیر روایتی اسکول اور رانا عمران کی کاوش سے خاصے متاثر دکھائی دیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے نہایت حیران کن بات تھی کہ معاشرے کے جس طبقے کو اس اسکول میں تعلیم دی جارہی ہے ان کے ہاں اس کا تصور ہی نہیں۔
"مختلف چیزیں دیکھنے میں آئیں یہاں۔۔۔ اس طبقے کا تعلیم کی طرف تو کوئی رجحان ہی نہیں ان کا بڑا مسئلہ تو روٹی ہے تو ان بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا میرے نزدیک ایک بڑا کمال ہے۔"
انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب اور مرکز کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ اس طرح کے لوگوں کے لیے الگ بنیادی اسکول بھی بنائے جائیں۔
رانا عمران پرعزم ہیں کہ وہ کاغذ چننے اور چھونپڑیوں میں بسیرا کرنے والے ان بچوں کو معاشرے کا ایک اہم اور فعال شہری بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
"ان بچوں کو عام پر کوڑے سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے لیکن میں انھیں پڑھا لکھا کر کرسٹل بناؤں گا، ہیرا بناؤں گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے مخلتف شہروں میں بھی انھوں نے ایسی ٹیمیں تشکیل دے رکھیں ہیں جو اس منصوبے کو آگے لے کر چلیں گی لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے تاحال یہ قابل عمل نہیں ہوسکا ہے۔