امریکی اتحادی پاکستان کی نگاہیں اب چین اور روس کی جانب

دونوں بنیادی طور پر امریکہ کے حریف ہیں اور پاکستان کی بھارت کے ساتھ مخاصمت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، جب کہ عالمی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ میں شگاف نمودار ہے، ایسے میں جب صدر ٹرمپ حکمتِ عملی کے حامل اِس خطے سے متعلق اپنی بیرونی پالیسی مرتب کر رہے ہیں

دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا ایک کلیدی اتحادی رہنے کے بعد، اب پاکستان امریکہ سے دور ہوتا جا رہا ہے، جس پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ درجن بھر سے زائد دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ برعکس اِس کے، رفتہ رفتہ اُس کی چین اور روس کے ساتھ قربت پیدا ہو رہی ہے۔

دونوں بنیادی طور پر امریکہ کے حریف ہیں اور پاکستان کی بھارت کے ساتھ مخاصمت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، جب کہ عالمی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ میں شگاف نمودار ہے، ایسے میں جب صدر ٹرمپ حکمتِ عملی کے حامل اِس خطے سے متعلق اپنی بیرونی پالیسی مرتب کر رہے ہیں۔

چار میں سے تین ہمسایوں۔۔ افغانستان، بھارت اور ایران۔۔ کے ساتھ پاکستان کے نچلی سطح کے تعلقات ہیں۔ اور شدت پسندی کو قابو کرنے کی کوششوں کے برعکس، حکومت قدامت پسند تحریک کو فروغ دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہے، اور متنازع ناموسِ رسالت کے قانون کی حمایت سے دستبردار ہونے کا کوئی امکان نہیں، جس کے باعث بارہا پُرتشدد ہنگامیں رونما ہو چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اندازاً 60 عالمی دہشت گرد تنظیمیں، جنھیں امریکہ کالعدم قرار دے چکا ہے، 13 پاکستان میں ہیں، جن میں سے زیادہ تر قبائلی علاقے میں ہیں، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔

اہم شدت پسند گروپوں میں پاکستانی طالبان اور حقانی نیٹ ورک شامل ہیں، علاوہ لشکر جھنگوی، جیش محمد اور جنداللہ کے۔ حالانکہ اس تردید کے باوجود کہ ملک میں داعش وجود نہیں رکھتی، اِس دہشت گرد گروپ نے وہاں ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

گذشتہ ستمبر میں دو امریکی قانون سازوں نے ایک بِل پیش کیا جس کا مقصد پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینا تھا، چونکہ ملک داخلی طور پر پنپنے والی شدت پسندی کے انسداد میں کامیاب نہیں رہا، جب کہ اِن سے ہمسایوں کو خطرہ لاحق ہے۔ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹیڈ پو اور ڈانا روراباچر نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان عالمی دہشت گرد لیڈروں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتا ہے، جس میں حقانی نیٹ ورک شامل ہے، جو افغانستان میں افغان اور امریکی قیادت والی نیٹو افواج کو نشانہ بناتا ہے۔

دہشت گردی کی پشت پناہی

افغانستان اور عراق میں تعینات رہنے والے سابق امریکی سفیر، زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔

خلیل زاد نے حالیہ دِنوں 'وائس آف امریکہ' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ''حقانی نیٹ ورک نے، جو القاعدہ اور طالبان انتہا پسندوں کا اتحادی ہے، پاکستان کے ہتھکنڈے کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔''

بقول اُن کے، ''اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف اقدام سے انکار کرتا ہے، تو امریکہ کو اِن ٹھکانوں کے خلاف قدم اٹھانا چاہیئے، جس میں اُنھیں ہدف بنانا شامل ہے''۔

حسین حقانی 2008 سے 2011ء تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ اب واشنگٹن میں 'ہڈسن انسٹی ٹیوٹ' میں جنوبی اور وسط ایشیا کے سربراہ ہیں۔

حقانی نے حالیہ دِنوں 'نیو یارک ٹائمز' میں ایک مضمون میں تحریر کیا ہے کہ ''پاکستان کے لیے یہ اتحاد زیادہ تر بھارت کے ساتھ اُن کی محاذ آرائی کے حوالے سے ہتھیار، معاشی امداد اور سفارتی حمایت کےحصول کا معاملہ رہا ہے''۔