کراچی میں کچھ لوگ ’نیلوفر‘ کی آمد کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ وہ اس حد تک ’ایکسائیڈیٹ‘ ہیں کہ سرشام ہی ’سی ویو‘ اور اس سے متصل ’ڈیول پوائنٹ‘ پہنچ جاتے ہیں۔ قلانچیں بھرتی اور پتھروں سے ٹکراتی لہروں اور اس سے پھوٹنے والی ننھی ننھی بوندوں میں بھیگنا انہیں اتنا پسند آرہا ہے کہ کنٹونٹمنٹ بورڈ کلفٹن، ڈی ایچ اے، پولیس اور لائف گارڈز کے بار بار روکنے، ٹوکنے کے باوجود بھی وہ کسی نہ کسی طرح لہروں کے قریب پہنچ ہی جاتے ہیں۔
سمندری طوفان ’نیلوفر‘ کے بارے میں حکومتی اداروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اس کا رخ سندھ کی طرف ہوگیا ہے۔ چودہ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھتا ہوا یہ جمعرات کی دوپہر تک کراچی کے ساحل تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن کراچی کے بہادر شہریوں کو اس کی رتی برابر فکر نہیں۔
بدھ کو دن بھر افق پر بادل چھائے رہے اور تیز ہوائیں چلتی رہیں۔ ماہرین موسمیات سمیت شہر کے’جہاں دیدہ لوگ‘ ان بادلوں کو دیکھ کر موسم کے بگڑتے تیوروں کا اندازہ لگاتے رہے۔ لیکن، ’نیلوفر‘ کے منتظر دیوانوں نے دن تو سی ویو اور اس کے ارد گرد گزارا، وٴہی گہرا اندھیرا ہونے کے گھنٹوں بعد بھی وہیں ٹہلتے رہے۔
انہی میں سے ایک گزری، کراچی کے رہائشی اور بزرگ شہری حنیف بھی شامل تھے جو اپنی چھ سات سالہ نواسی جویرا کے ساتھ سی ویو ’گھومنے‘ اور ’نیلوفر‘ کی آمد سے پہلے کے مناظر دیکھنے سی ویو پہنچے تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات چیت میں انہوں نے انکشاف کیا کہ’جویریہ گلستان جوہر سے محض’نیلوفر‘ کا نظارہ دیکھنے یہاں آئی ہیں۔‘
حنیف اور جویریا کی طرح ہی وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس شوق میں ساحل پہنچی تھی کہ ’دیکھیں تو سہی سمندری طوفان کیسا ہوتا ہے۔۔!‘ ایک نوجوان ارشد بھی انہی میں شامل ہیں جو اپنے دو دیگر دوستوں کے ساتھ ساحل پر موجود تھے۔ انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ وہ پشاور کے شہری ہیں اور آج کل کراچی آئے ہوئے ہیں اور’نیلوفر‘ کی شہرت کے سبب اسے دیکھنے سی ویو آئے ہیں۔
ارشد اور ان کے دو دوست اس دیوار کے عین اوپر بیٹھے تھے جس کا نچلا حصہ سمندرکے پانی میں غوطہ زن تھا۔ یہاں بیٹھ کر وہ بالکل خوف زدہ نہیں تھے اور اس بات کا ثبوت تھا ان کے کانوں میں لگا ہوا ہیڈفون جو ان کی جیب میں رکھے موبائل فون سے کنکٹ تھا۔ وہ موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے تھے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ تینوں دوستوں نے آگ پر بھنے ہوئے گرما گرم بھٹے کے بھی مزے لے رہے تھے۔
سمندر کا کنارہ، سیلی سیلی سی ٹھنڈی ہوا، بھٹے کا لذیذ ذائقہ، گرما گرم چائے کی چسکیاں، پرسکون ماحول۔۔۔یہ ساری وہ دلکشیاں تھیں جس کے مزے سمندر سے متصل دیوار پر بیٹھے ڈھیروں لوگ کر رہے تھے۔ انہیں قطعی یہ فکر نہیں تھی کہ آنے والا طوفان کس حد تک نقصان دے ہوسکتا ہے۔
ساحل پر اگر کچھ لوگ فکر مند نظر آئے تو وہ تھے لائف گارڈز اور پولیس اہلکار۔ لائف گارڈز نے سی ویو کا سارا علاقہ اپنے ’قبضے‘ میں لیا ہوا تھا کسی کو بھی پانی کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مین سی ویو ویران تھا، ہر قسم کے ہوٹلز بند تھے، پارکنگ بھی خالی تھی، ریڑھی والے اور پھیری کرنے والے بھی سب کے سب غائب تھے۔ لیکن، اس سے متصل علاقہ ’ڈیول پوائنٹ‘ جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے وہ لوگوں سے تقریباً بھرا ہوا تھا۔ یہ سی ویو سے کچھ فاصلے پر ہے۔ یہاں پولیس اور سیکورٹی کا دیگر عملہ موجود نہیں تھا۔
”سمندر میں ’جوار‘ ہے، پانی کو کراس لگا ہوا ہے“: لائف گارڈ
بدھ کی شام جس وقت جب نمائندے نے سی ویو اور ڈیول پوائنٹ کا دورہ کیا وہاں فائر بریگیڈ اور پولیس کی گاڑیاں، سی بی سی کا عملہ اور لائف گارڈز موجود تھے۔ محمد علی فی الوقت لائف گارڈ کے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر ماہی گیر ہیں۔ انہیں کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ نے عارضی ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔
محمد علی کا کہنا ہے کہ وہ عرصے سے لوگوں کی زندگیاں بچانے کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال یعنی سال 2013ء میں تو انہوں نے 85لوگوں کو ڈوبنے اور خود کشی کرنے سے بچایا۔ ثبوت کے طور پر ان کے پاس ان افراد کے فوٹوگرافز بھی موجود ہیں۔ محمد علی نے چند لمحوں میں ہی کئی انکشافات کر ڈالے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سمندر میں ان دنوں ’جوار‘ آیا ہوا ہے اور پانی کو ’کراس‘ لگا ہوا ہے، اس لئے یہاں نہانا یا اس کے اندر جانا انتہائی خطرناک ہے۔
انہوں نے اپنے کئی سالہ تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ پانی کا مزاج اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ سمندر کب ’غصے‘ اور کب ’پیار‘میں ہوتا ہے، انہیں سب پتہ چل جاتا ہے۔
مزید استفسار پر انہوں نے بتایا، ’جوار سے مراد یہ ہے کہ سمندر ان دنوں چڑھا ہوا ہے۔ یعنی، پانی کا بہاوٴ بہت تیز ہے۔ یہ بہاوٴ بھی سیدھا سادھا نہیں بلکہ ’کراس‘ میں ہے۔ یعنی، پانی کا بہاوٴ ’آڑھا‘ ہے ایسی صورت میں اگر کوئی انسان یا شے اس میں ڈوبنے لگے تو پانی اس کی لاش تک کو کنارے پر نہیں آنے دیتا اور گول گول گھماتا رہتا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہوتی ہے ۔عید پر اسی جگہ اور کراس میں پھنس کر چالیس افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔‘
بے زبان ساحل پر گمنام لوگوں کی خاموش کہانیاں
دوران گفتگو محمد علی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’سی ویو پر لوگ اپنے حالات سے تنگ آکر خود کشیاں بھی کرنے آجاتے ہیں۔‘ ان کا دعویٰ ہے کہ ’میں سو لوگوں میں بھی خودکشی کا ارادہ کرکے یہاں آنے والے شخص کو اپنے تجربے سے پہچان سکتا ہوں، اور بارہا ایسا ہوچکا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ، ’پچھلے دنوں ہی میں نے تین خواتین کو خودکشی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لیکن، میں ساحل سے بہت دور تھا ان پر نگاہ دیر سے پڑی جبکہ پانی کا بہاوٴ اتنا تیز تھا کہ جتنی دیر میں میں ان تک پہنچتا وہ سمندر برد ہوگئیں اور میں کوشش کے باوجود انہیں نہیں بچا سکا‘۔
ایک نوعمر لڑکی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی کچھ دن پہلے ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے یہاں پہنچی تھیں۔ لیکن، وہ بروقت پہچان گئے اور اسے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر واپس کنارے تک لے آئے۔ پولیس کے ریکارڈ میں اس لڑکی کا نام پتہ بھی درج ہے۔ پولیس کی مدد سے ہی انہوں نے لڑکی کو اس کے گھروالوں کے سپرد کیا۔
میلوں دور تک پھیلے ساحل پر ’گنتی‘کے لائف گارڈز
محمد علی کے مطابق سمندری طوفان ’نیلوفر‘ سے بچنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کسی طرح بھی اطمیان بخش نہیں۔ ان کے بقول، ’اتنے بڑے ساحل پر ان سمیت چار لوگ دوپہر تین بجے سے رات گیارہ بجے تک ڈیوٹی انجام دیتے ہیں جبکہ صبح کے اوقات میں صرف دو گارڈز ہوتے ہیں، جو کسی طرح بھی کسی ہنگامی صورتحال کو سنبھال نہیں سکتے۔‘
محمد علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس جان بچانے والے آلات اور یہاں تک کہ لائف بیلٹس بھی موجود نہیں۔ جو آلات آپ دیکھ رہے ہیں وہ بھی ہمارے اپنے ٹوٹکوں سے تیار کردہ ہیں کیوں کہ متعلقہ اداروں کے پاس جدید آلات خریدنے کے لئے فنڈز نہیں۔ اتنے بڑے طوفان کی پیش گوئی کے باوجود، آپ کو کوئی جدید سامان، گاڑیاں، ہیلی کاپٹرز، ریسکیو ٹیمیں اور مناسب تعداد میں غوطہ خور یہاں نظر ہی نہیں آئیں گے۔ ایسے میں، اطمینان بخش صورتحال کیسے ہوسکتی ہے۔‘
قرآن سمندر برد کرنا
مزمل اور بشیر احمد بھی پانی سے لوگوں کو دور رکھنے اور بچانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’یہاں ڈیوٹی دیتے ہوئے طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں سے اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جو قرآن اور سپاروں کے بوسیدہ اوراق بوریوں میں بھر بھر کر ساحل پر لاتے اور انہیں سمندر برد کرجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس طرح اسلامی صفحات اور تحریریں بے ادبی سے بچ جاتی ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ کیوں کہ بھاری بھاری بوریاں لہروں میں ہچکولے لیتی کچھ ہی گھنٹوں بعد کنارے پرآجاتی ہیں۔ پانی میں پڑے پڑے بوریاں اور اسلامی صفحات گل جاتے ہیں اور لوگوں کے پیروں تک آنے لگتے ہیں۔ یہ درست طریقہ نہیں‘۔
دوران گفتگو ہی ایک اور لائف گارڈ اسد نے کنارے پر بہتی ہوئی کپڑے کی ایک بڑی سی بوری کو پانی سے باہر نکالا۔ اسے کھولنے پر معلوم ہوا کہ اس کے اندر بڑی تعداد میں بوسیدہ قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر والی کتابیں موجود تھیں۔
بشیر احمد کے مطابق کچھ لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ’پانی میں مقدس آیات ڈالنے سے سمندر کا مزاج ٹھنڈا رہتا ہے۔ وہ انسانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا‘۔ ان کے بقول، ’یہ سب سمجھ سے بالاتر باتیں ہیں۔ میں روزانہ ہی ایسے لوگوں کو بھی دیکھتا ہوں جو سمندر کی سات لہروں کا پانی اکھٹا کرنے یہاں آتے ہیں۔ کچھ کو 21لہروں کا پانی چاہئے ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جس گھر پر ’سایہ‘ یا جن بھوت رہتے ہیں وہاں اس پانی کا چھڑکاوٴ کیا جائے تو جنوں کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ، سائنس ایسی کوئی منطق بیان نہیں کرتی‘۔
بشیر احمد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ لوگ جنوں اور بھوتوں کے اثر سے بچنے کے لئے لیموں، سوئیاں، دھاگے، مرغی کا گوشت، بکرے کا گوشت، انار، پیاز، لہسن اور اسی قسم کی درجنوں چیزیں سمندر برد کرنے آتے ہیں۔ کسی کو یہ خیال ہے کہ اس طرح ان کو لگی ہوئی بری نظر اتر جائے گی تو کچھ کا خیال ہے کہ گھر میں خوشحالی آئے گی۔ کچھ کو جنوں سے راحت ملنے کا یقین ہوتا ہے لیکن یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں، میرے تئیں ان میں کوئی سچائی نہیں۔‘
بشیر احمد کے بقول، ’بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں امید ہے کہ بحیرہ عرب سے آنے والا سمندری طوفان ’نیلوفر‘ کراچی کا بال بھی بیگا نہیں کرسکے گا کیوں کہ سمندر کے کنارے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کا مزار ہے اور بابا اپنے ہوتے ہوئے کراچی کو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔‘