لاہور: نوجوان آرکیٹیکٹ کا قاتل آرٹسٹ دوست نکلا

قتل کے ملزم اور آرٹسٹ احمد سعید کی ایک فائل فوٹو۔ ملزم کا دعویٰ ہے کہ اسے نشے کی لت تعلیم کے دوران لگی۔

احمد سعید نے دعویٰ کیا کہ 'این سی اے' میں منشیات کا استعمال نہ کرنے والوں کو ادارے کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا اور وہ معاشرتی تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور ميں چند روز قبل مارے جانے والے آرکيٹيکٹ کے قتل کا سراغ مل گيا ہے۔

نوجوان آرکیٹیکٹ کو اس کے آرٹسٹ دوست نے ہيروئن کے نشے ميں دھت ہوکر قتل کيا۔ پوليس نے ملزم کو گرفتار کرکے تفتيش مکمل کرلی ہے۔

لاہور کے علاقے مال روڈ پر واقع نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) کے گريجويٹ آرکيٹکٹ نوال جاوید کی لاش چند روز قبل لاہور کے علاقے گلشن راوی سے ملی تھی۔

پولیس نے نوجوان کے موبائل فون کالز کی تفصيلات سے تفتيش کی تو قاتل بھی اين سے اے کا گريجويٹ ہی نکلا۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور ابرار نیکو کارہ نے کیس سے متعلق وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ہيروئن کے نشے نے آرٹسٹ کو قاتل بنا ديا۔

ان کے بقول نوال جاوید نے اپنے دوست احمد سعید کو پانچ ہزار روپے قرض دیا تھا اور جب قرض واپس مانگا تو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور ملزم نے اپنے ہی آرکيٹيکٹ دوست کو قتل کر ديا۔

ابرار نیکو کارہ کے مطابق ملزم نے واردات چھپانے کے لیے اپنے دوست کی لاش پلاسٹک میں لپیٹ کر گھر کے قریب پلاٹ میں پھینک دی تھی۔ لیکن پولیس نے موبائل فون کالز کے ریکارڈ اور لوکیشن کی مدد سے قتل کا معمہ حل کر لیا۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے بتایا کہ قتل کی تفتیش کے دوران خواتین سمیت این سی اے کے درجن سے زائد طلبہ کو شاملِ تفتیش کیا گیا تھا جن میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ تمام ہیروئن اور چرس سمیت دیگر منشیات کے عادی تھے اور نشے کا بے دریغ استعمال ان کی دوستی کی وجہ تھی۔

ملزم احمد سعيد اپنے خاندان کی چودھويں نسل سے ہے جو پينٹنگ کے فن سے وابستہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملزم احمد سعید نے بتایا کہ اسے ہیروئن کے نشے کی عادت دورانِ تعلیم لگی تھی اور نشے کی حالت میں ہی اس نے قتل کا ارتکاب کیا۔

ملزم نے دعویٰ کیا کہ این سی اے سمیت دیگر تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں منشیات کی ترسیل باآسانی ہو جاتی ہے۔

احمد سعید نے دعویٰ کیا کہ 'این سی اے' میں منشیات کا استعمال نہ کرنے والوں کو ادارے کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا اور وہ معاشرتی تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل ڈاکٹر مرتضی جعفری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالج کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ان کے بقول ملزم این سی اے کا سابق طالبِ علم ہے اور یہ واقعہ کالج یا ہاسٹل کی حدود میں نہیں ہوا۔

کالج میں منشیات کے استعمال سے متعلق ایک سوال پر ڈاکٹر مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ کالج اور ہاسٹل میں منشیات کے بارے بہت سختی کرتی ہے اور وقتاً فوقتاً طلبہ و طالبات کی جانچ پڑتال بھی کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کالج میں منشیات کے استعمال کے بارے میں پولیس کی تفتیش درست نہیں۔

ملزم احمد سعید نے سنہ 2013 میں این سی اے سے گریجویشن کی تھی اور اس کی ایک پینٹنگ لاہور میں ہونے والی ایک نمائش میں ورلڈ بینک نے بھی خریدی تھی۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ منشیات کا استعمال فیشن بن گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عالیہ کا کہنا تھا کہ ایک تو معاشرے میں منشیات با آسانی مل جاتی ہے دوسرا نوجوانوں کو اس کی غلط تشریح کی جاتی ہے کہ اس سے تخلیقی صلاحتییں بڑھتی ہیں۔

ان کے بقول منشیات کے استعمال کے دوران ایک مرحلہ آتا ہے جسے 'یوفوریا' کہا جاتا ہے۔ اس میں تسکین ملتی ہے اور اچھا لگتا ہے۔ اس کے بعد افراد اس کے عادی بن جاتے ہیں۔

لاہور کی تاریخ کو کینوس پر پینٹ کرنے والے مشہور آرٹسٹ اور مصور ڈاکٹر اعجاز انور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کے استعمال کو صرف آرٹسٹوں سے جوڑنا مناسب نہیں کیوں کہ اب اس کا استعمال معاشرے میں ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے جو ان کے بقول ایک خطرناک عمل ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور نے کہا کہ ایک اچھا آرٹسٹ وہی ہوتا ہے جس کا ذہن تندرست اور مثبت ہو۔ نوجوان طلبہ میں منشیات کے استعمال کو روکنے میں اساتذہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔