مجھے یاد آیا: فریضہٴحج کی تیاری

مقررہ دن پر ہم وہاں پہنچ گئے۔ کافی لوگ جمع تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ سب آپکے حج سفر کے ساتھی ہیں
چوبیس اکتوبر، 2013ء کی شام سعودی ایرلائن کے طیارے نے ایک زوردار جھٹکے سے لینڈنگ کی، تو میں ھڑبڑا کر اُٹھ گیا۔ کچھ دیر سکتے کے عالم میں رہا کہ یہ کیا ہوا؟ پھر مونا نے جو ساتھ کی سیٹ پر بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں، میری طرف متوجہ ہو کر کہا: ’شکر الحمد لی اللہ۔خیریت سے پہنچ گئے‘۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہم واشنگٹن ڈی سی کے ڈیلس انٹرنیشیل ائرپورٹ پر لینڈ کر چکے ہیں۔

مجھے اچانک پی آئی اے کے طیاروں کی لینڈنگ یاد آگئی، جو اتنے غیر محسوس طریقے سے اسلام آباد یا دوسرے ہوائی اڈوں پر اترتے تھے کہ لگتا تھا ابھی فضا میں ہی تیر رہے ہیں۔ اور پھر لوگ، پائلٹ کو اُسکی شاندار کارکردگی اور وطن پہنچنے کی خوشی میں ایسی پُرزور تالیاں بجاتے تھے کہ پورا طیارہ گونج اٹھتا تھا۔ یہ پرانی بات ہے۔

خیر، جی تو چاہ رہا تھا کہ اس یادگار اور مقدس سفر کے کامیاب اختتام پر، فوراً سجدہٴ شکر بجا لاؤں۔ لیکن، اس وقت جہاز کی پوزیشن ایسی تھی کے صرف بیٹھے بیٹھے ہی شکر کیا جاسکتا تھا۔

ابھی جہاز تیزی سے رن وے پر دوڑ رہا تھا کے میں پھر سے سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ آنکھیں بند کئے اُسی دنیا میں لوٹ گیا جو انجانی دنیا تھی۔ لیکن، کیا وہ واقعی دنیا تھی یا دنیا میں بظاہر موجود کوئی آفاقی حصہ تھا؟ یہ سفر کیا تھا؟ سب کچھ معجزاتی تھا۔ ایک انجانی طاقت سب کچھ آپ سے کروا رہی تھی اور آپ محض اُس عمل کا ایک حصہ بنے، سمندر کی لہروں پر بہے جا رہے تھے۔

جس دن میرے پیارے دوست، حج کے ساتھی اور ٹوئر آپریٹر،اعجاز جنجوعہ کا بالٹی مور سے فون آیا کہ: ’خالد صاحب، آپکا حج کا ویزہ لگ گیا ہے‘۔ تو وہ شاید زندگی کی سب بڑی خوشی کی خبر تھی۔۔میں اپنے دفتر کے ڈیسک پر بیٹھا، اچانک کھڑا ہوگیا اور جی چاہا زور زور سے نعرے لگاؤں اور خوشی سے چلاّؤں۔ سب کو بتاؤں کہ میری حاضری منظور ہو گئی ہے۔ گھر پہنچ کر بیوی اور بچیوں کو یہ خوشخبری سنائی۔ کیونکہ، اس پروگرام میں سب سے زیادہ کوشش میری بیٹیوں کی تھی۔

ایک دن اچانک کھانے کی میز پر مدیحہ نے کہا کہ، ’پاپا آپ اس سال حج پر چلے جائیں‘۔

میں ہنس کر خاموش ہوگیا۔

ربیعہ نے بھی اصرار کیا کہ اس سال دس لاکھ لوگ کم آ رہے ہیں۔ موسم بھی بہتر ہے۔آئندہ سالوں میں گرمی بڑھ جائیگی اور مشکل بھی ہو جائیگا۔ بس چلے جائیں۔ پیچھے کی فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائیگا۔ ہم آپکی سیٹ بک کروا رہے ہیں۔ مونا، جو یہ سن رہی تھیں، فوراً بولیں کہ میرے بغیر نہ جانا، میں ضرور جاؤں گی۔

بچوں کے اس قدر اصرار پر، میں سوچ میں پڑ گیا۔

خواہش تو ہمیشہ رہتی تھی اور پروگرام بھی ہر سال ہی بنتا تھا۔ لیکن، ایک عجیب سا خوف گھیرے رہتا کہ کیسے ہوگا سب کچھ اتنے لوگوں کے درمیان رہنا، کھانا پینا، سونا اور پھر پبلک باتھ روم کے مسائل۔ اپنی کمر کے درد کا بھی خیال آتا تھا کہ بڑھ گیا تو کیا ھو گا۔ کبھی کبھی پیر کے انگوٹھے میں شدید درد ہو جاتا ہے۔ جو یورک ایسڈ کے بڑھ جانے کا شاخسانہ ہے۔ اس سے چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔

ان سب سے بڑھ کر اخراجات، حج پیکیج ہر سال مہنگا ہوتا جا رہا تھا۔ ادہر بیوی کی ہمیشہ یہ ضد کہ میں ساتھ جاؤں گی۔ یعنی، خرچہ ڈبل۔ لیکن، بات ان کی بھی صحیح تھی کہ وہ کس کے ساتھ جائیں گی۔ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ غرض یہ سب کچھ سوچ کے ہی ہر مرتبہ پروگرام ٹھپ ہو جاتا تھا۔

لیکن، بیٹیوں نے ایسے پیار اور خلوص سے کہا کہ دل میں امنگ سی پیدا ہوگئی کہ چلو کوشش کر دیکھتے ہیں۔ بلاوا ہوا تو چلے جائیں گے۔ ورنہ، اُس کی رضا میں راضی۔

تو جناب، معلومات حاصل کرنا شروع کردی۔ جو لوگ پہلے جا چکے تھے ان کو فون کئے۔ آن لائن موجود حج پیکیجز پر نظر ڈالی۔ کچھ ٹریول ایجنٹس سے بات کی اور پھر ملاقات ہو گئی اپنے پرانے دوست، اعجاز جنجوعہ سے، جو نہ صرف یہ کہ ٹریول ایجنٹ ہیں بلکہ عمرہ اور حج کے انتطامات بھی کرتے ہیں۔ اور جب انہوں نے کہا کہ میں پچھلے سال گروپ لےکر گیا تھا اور اس سال بھی خود جاؤنگا۔ تو، مجھے تسلّی ہوگئی کہ بس ان کے ساتھ ہی جانا ہے۔ رقم کی ادائیگی کے بارے میں بھی انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اپنی سہولت کے مطابق تھوڑے تھوڑے کرکے دے دیں۔ یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا جو حل ہوگیا۔ بس، ہم نے ذہن بنالیا اور دل ہی دل میں تیاریاں شروع کردیں۔ مگر، انتطار تھا کہ جب تک ویزہ نہیں آجاتا اور سب کام نہیں ہوجاتے، یقین نہیں کیا جا سکتا۔

درمیان میں کئی مہینے کا وقفہ تھا جو گزارنا مشکل ہوگئے۔ طرح طرح کے وسوسے اور اندیشے جنم لے رہے تھے۔ منفی خیالات زیادہ آتے۔ یہی سوچ جنم لیتی کہ ہم نے زندگی میں کون سا ایسا کام کیا ہے جو اللہ کو خوش کردے اور ہماری حاضری کی درخواست منظور ہو جائے۔ بار بار، اعجاز جنجوعہ کو فون کرتا کہ میں نے جو فارم بھر کردیے تھے۔ سب ٹھیک ہیں؟ پاسپورٹ اور تصویریں مل گئیں؟ کیا جہاز پر سیٹیں بُک ہوگئیں ہیں؟ اور آخر وقت میں کینسل تو نہیں ہوجائیں گی؟ ویزے میں کتنے دن لگیں گے؟ وہاں پر ہوٹل ملنے میں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہو جائیگی؟ غرض، ہر روز نیا سوال کرکے میں نے انکی جان کھا لی۔ لیکن، وہ بیچارے انتہائی صابر آدمی ہیں۔ ہر بار، یہی تسلّی دیتے کہ ہاں ہاں، سب ٹھیک ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ سب کام وقت پر ہو جائیگا۔ لیکن، میرا ہر فون اس بات پر ختم ہوتا کہ اچھا اگر کوئی بات ہو تو مجھے پہلے سے بتا دینا۔ اور اِی میل ضرور کر دینا تاکہ مسئلے کو پہلے ہی حل کرلیں۔ اعجاز مسکراتے ہوئے کہتے، ’ضرور، ضرور میں آپکو فوراًٍٍٍ بتاؤں گا‘۔

پھر، آہستہ آہستہ خبریں آنے لگیں۔ سیٹیں کنفرم ہو گئیں۔ ہوٹل کے کمرے بُک ہو گئے۔ پاسپورٹ ویزے کے لئے چلے گئے۔ تھوڑا سا یقین ہونا شروع ہوا تو اب پوچھ گچھ شروع کی ان لوگوں سے جو پہلے حج کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔

سب سے پہلے مسجد کے امام، ولی محمد اور منتطمِ اعلٰی فاروق صاحب کو پکڑا کہ کیا کیا احتیاط کرنی ہے۔ کن باتوں سے بچنا ہے۔ روضہٴرسول پر حاضری کیلئے کون سا وقت مناسب ہے۔ طواف کب اچھی طرح سے کیا جاسکتا ہے۔ دعائیں اور دوسری عبادات کب اور کیسے کی جائیں۔ اور اتنے لوگوں کے درمیان کیسے رہا جائیگا۔ اور باتھ روم پر لوگوں کے رش سے کیسے نمٹا جائے۔

کچھ اور لوگوں سے بھی اس سلسلے میں ملاقاتیں کیں۔ تمام موجود کتابیں اور ویڈیو بھی دیکھ ڈالیں۔ ساتھ ساتھ، مونا بیگم کو پریشان کرنے کا عمل جاری رہا۔ وہ بھی صبر و سکون سے سنتی رہتیں اور کہتیں کہ جب جائیں گے تو سب صحیح ہوجائیگا۔

طبیعت کی بے چینی جاری تھی کہ ایک دن اعجاز کا فون آیا کہ حج گروپ میں شریک تمام لوگ ہفتے کے روز فلاں ہوٹل میں جمع ہونگے اور گروپ کے امام بریفنگ دیں گے۔ یہ اتنی خوشی کی خبر تھی کی کچھ نہ پوچھئے۔ بس، یوں محسوس ہوا کہ حج کا سفر شروع ہو گیا۔

خیر، مقررہ دن پر ہم وہاں پہنچ گئے۔ کافی لوگ جمع تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ سب آپکے حج سفر کے ساتھی ہیں۔ امام ابو زید نے بہت اچھا خطبہ دیا۔ سلائیڈز اور ویڈیو کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی۔ آخر میں گروپ کے تمام لوگوں کو ایک ایک پیکٹ دیا گیا جس میں ان کے پاسپورٹ ویزے سمیت، حج شناختی کارڈ، جہاز کے ٹکٹ، ہوٹل کی معلومات وغیرہ سب ایک بیک پیک میں رکھ کر دی گئیں۔ ہم بھی قطار میں کھڑے تھے اور جب میز تک پہنچے تو وہاں موجود خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپکا پیکٹ نہیں آیا۔ ھماری مسکراہٹ یکسر ہوا ہوگئی اور اس خاتون کی مسکراہٹ زہر لگنے لگی۔ پوچھا کیوں۔ کہنے لگی کہ آپ اعجاز صاحب سے پوچھیں۔ فوراً اُن سے رجوع کیا۔ پتہ چلا کہ ابھی
پاسپورٹ سفارتخانے سے نہیں آئے۔ ویزا نہیں لگا۔

یہ سنتے ہی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔جتنے منفی خیالات تھے، خدشات تھے سب حقیقت بنتے نظرآئے۔زندگی بھر کے گناہ ایک ایک کر ذہن میں گھومنے لگے اور یقین ہو چلا کہ ہماری حاضری نامنظور ہوگئی۔) باقی آئندہ نشست میں)