کوئٹہ: مقتول کان کنوں کے لواحقین کا دھرنا

شیعہ تنظیم 'مجلس وحدتِ مسلمین' بھی دھرنے میں شامل ہو گئی ہے۔ 

'مجلس وحدتِ مسلمین' نے کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ میتوں کی تدفین اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا۔

کوئٹہ میں سخت سردی کے باوجود لواحقین اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگ کھلے آسمان تلے دھرنا دیے ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

واقعے کے خلاف پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا ہے۔ 

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے کان کنوں کے قتل کا مقدمہ زیرِ دفعہ 224 اور 302 انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کر لیا ہے۔​

شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

تنظیم کے زیرِ اثر نیوز ایجنسی 'عماق' کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ کے اراکین نے ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو ہلاک کیا۔

گزشتہ روز واقعے کے بعد لواحقین نے ہلاک ہونے والے مزدوروں کی میتوں کے ہمراہ بلوچستان اور سندھ کو ملانے والی قومی شاہراہ پر مچھ کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔

اس سے قبل ہزارہ قومی جرگہ نے پیر کو میتیں دفنانے کا اعلان کیا تھا تاہم لواحقین نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔

خیال رہے کہ مچھ کے علاقے گیشتری کی کوئٹہ کوئلہ فیلڈ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دہشت گردوں نے کئی مزدوروں کو اغوا کر لیا تھا۔ حکام کے مطابق شناخت کے بعد بلوچستان کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مچھ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو حکم دیا تھا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔

مچھ, بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر بولان کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے۔ یہاں کوئلے کی کانوں کے علاوہ قدیم کوئلہ ڈپو بھی ہے۔ جہاں ملک بھر سے کان کن کام کی غرض سے آتے ہیں۔

دھرنے کے باعث مغربی بائی پاس قومی شاہراہ دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے گزشتہ روز سے مکمل بند ہے۔

اس سے قبل بھی سورینج، مارواڑ، سنجدی، مچھ، ہرنائی اور دُکی سے کان کنوں کو اغوا کیا جاتا رہا ہے۔ جن میں سے بعض کو قتل بھی کیا گیا۔