لاہور کا مستی دروازہ اور بیگم شاہی مسجد

مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں 1611 میں شروع جب کہ 1614 میں مکمل ہوئی۔

مستی دروازے میں واقع یہ تاریخی مسجد اب تجاوزات میں گھر چکی ہے۔ تاہم اب اس کی تعمیر و مرمت کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

پہلے مرحلے میں مٹے ہوئے نقوش کو اُن کی اصل حالت میں واپس لانا ہے۔ شاہی قلعہ کے اطراف خصوصاً عقب کی خوبصورتی کی بحالی والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کے مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہے۔

سکھوں کے عہد میں اس مسجد کا استعمال بطور بارود خانہ بھی ہوا۔ جس کے باعث یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اُس دور میں یہ بارود خانہ والی مسجد کے نام سے پہچانی جانے لگی۔

مستی دروازے میں داخل ہوتے ہی کاروباری افراد کا ہجوم اور ٹریفک کا دباؤ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیوں اور بڑی گاڑیوں کے استعمال شدہ رم یہاں لائے جاتے ہیں، بحری جہازوں کے استعمال شدہ پرزے بھی اسی مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔ تاہم حکومت مسجد کو اصل شکل میں بحال کرنے کے لیے اس رم مارکیٹ کو یہاں سے منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مسجد کے آرائشی کام میں قُرآنی آیات کی خطاطی اور پھول بوٹے اور کھجور کے درخت واضح ہیں۔ یہاں کی دیواروں اور چھت پر بنے نقش و نگار میں سے بعض اب بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جبکہ بیشتر حصے سے چونا تک مٹ چُکا ہے۔

مارکیٹ کی منتقلی کے بعد مسجد کے بیرونی علاقے سے شاہی قلعہ تک باغ بنانے کا منصوبہ ہے۔

مریم زمانی مسجد کے گُنبد شاہی قلعے کے اکبری دروازے کی گھاٹی پر چڑھ کر باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہ مسجد شاہی قلعے کے اکبری دروازے کے بالکل قریب واقع ہے۔

مسجد کے قریب رم مارکیٹ کی وجہ سے یہاں ہر وقت رش رہتا ہے۔

مغلیہ فنِ تعمیر کی جھلک اس مسجد میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔