'ہم نے اپنے خواب جلا دیئے ہیں، ہم ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں'

افغانستان میں سابق حکومت کا ایک عہدیدار، جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا، فوٹو اے پی

آج کل آپ کابل میں کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری سے ملیں خواہ وہ مقامی مارکیٹ میں بیوپاری ہو یا خریدار، حجام کی دکان پر آنے والا کوئی شخص، کابل یونیورسٹی میں طالبعلم یا پھر بے گھر افراد کے کیمپوں میں مقیم شہری۔ ہر شخص طالبان کی آمد کے بعد یہی چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح سے ملک چھوڑ دے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے صحافی کی رپورٹ کے مطابق بعض افغان شہری اشرف غنی حکومت یا غیر ملکی تنظیموں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اپنا مستقبل خطرے میں پاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کے مطابق ان کا طرز زندگی، سخت گیر موقف رکھنے والے طالبان کے طرز زندگی سے کبھی میل نہیں کھا سکتا۔ کچھ کو طالبان سے خوف نہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ پہلے سے ہی کمزور ملک کی معیشت طالبان کے چارج سنبھالنے کے بعد مزید زبوں حالی کا شکار ہو گی اور ایسے حالات میں یہاں کیسے رہا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے پہلے پندرہ روز میں امریکہ اور اتحادیوں کی مدد سے ہزاروں افراد کو ملک سے باہر نکالا گیا تھا، جس کے بعد یہ عمل سست روی کا شکار ہوگیا۔ ملک چھوڑنے کے خواہشمند کئی شہری سفر کے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے جبکہ کئی کے پاس پاسپورٹ تک نہیں تھا اور افغانستان پاسپورٹ دفاتر ابھی حال ہی میں کھل پائے ہیں۔

ملک چھوڑنے والوں میں ایسے بہت سے افغان نوجوان ہیں جو اپنے ملک کی تعمیر نو میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان ہی جیسے نوجوانوں میں سمیہ اور ان کے شوہر علی بھی شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا طالبان کی حکومت میں افغان لڑکیاں اسکول نہیں جا سکیں گی؟

کئی ہفتوں سے ذہنی اذیت کے بعد سمیہ اپنے شوہر علی کے ساتھ اپنا وطن، اپنا گھر افغانستان چھوڑ کر جا رہی ہے۔

سمیہ اور علی افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ملک چھوڑنے کی تگ و دو میں تھے۔ علی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ سمیہ سول انجینئر ہیں اور اقوام متحدہ کے کئی ترقیاتی پروگرامز کے لئے کام کر چکی ہیں۔ دونوں اپنے ملازمت کی نوعیت اور طالبان حکومت کے سخت گیر موقف کی وجہ سے غیر یقینی کا شکار تھے۔ دونوں کا تعلق ملک کی شیعہ ہزارہ برادری سے ہے جو ماضی میں طالبان حکومت کے بدترین ظلم و ستم کا شکار رہ چکی ہے۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ سمیہ امید سے ہیں۔ اپنے رحم میں پلنے والی بچی کا نام وہ پہلے ہی سوچ چکی ہیں اور اسے اس ماحول میں دنیا میں نہیں لانا چاہتیں۔

خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے سمیہ نے بتایا کہ جب تک افغانستان پر طالبان کی حکومت رہے گی وہ اپنی بیٹی نگار کو افغانستان کی سر زمین پر پیر بھی نہیں رکھنے دیں گی۔

جہاز پر موجود ملک چھوڑنے والے دوسرے افغانوں کی طرح سمیہ اور علی نے بھی اپنا مکمل نام ظاہر نا کرنے کی گزارش کی۔

اے پی کے مطابق ستائیس سالہ انجینئر پوپل بھی ایسے ہے ایک افغان نوجوان ہیں جو برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔ پوپل بتاتے ہیں "میں ایک ہی خواب دیکھتے ہوئے بڑا ہوا کہ سخت محنت کر کے اس قابل بننا ہے کہ واپس جاکر اپنے ملک کے لئے کچھ کر سکوں، مگر اس تبدیلی کے بعد سارے خواب جیسے چکناچور ہو چکے ہیں".

طالبان کے قبضے سے چند ہفتوں قبل پوپل اپنے خاندان کو ملک سے باہر نکالنے کی نیت سے افغانستان پہنچے تھے مگر وہ ایسا نا کر پائے۔

یہ چند ہفتے پوپل اور ان کے خاندان کے لئے بڑے کٹھن گزرے ہیں۔ لوگر صوبے میں طالبان نے ان کا گھر تباہ کر دیا جس کے بعد ان کا خاندان کابل آگیا۔ پوپل اور ان کے خاندان کا ماننا ہے کہ ایسا طالبان سے جڑے اپنے رشتےداروں کو معلومات فراہم سے انکار پر کیا گیا۔ ان کی ایک بہن گزشتہ دنوں میں لوگر اور کابل کے درمیان سفر کے دوران لاپتہ ہوچکی ہیں۔ پوپل نے ایک پی کو بتایا کہ طالبان رشتےداروں کی جانب سے بہنوں کے تعلیم حاصل کرنے پر دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور یہ اسی کا نتیجہ نظر آتا ہے۔

پوپل کا کہنا ہے کہ انخلا کے لئے کام کرنے والے برطانوی حکام نے ان کے والدین اور بھائی بہنوں کو ملک سے باہر نکالنے کے لئے مدد فراہم کرنے معذرت کر لی۔ اب وہ خود کسی طرح برطانیہ پہنچ کر وہاں سے دوبارہ کوشش کریں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

تباہ حال افغان معیشت، لوگ گھروں کا سامان بیچنے پر مجبور

اشرف غنی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کے سابق مشیر نے اے پی کو بتایا کہ وہ بھی ملک سے باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر سابق مشیر نے بتایا کہ ماضی میں جیسے بھی حالات رہے انہوں نے کبھی افغانستان چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ تب بھی نہیں جب سال 2016 میں کابل میں ایک احتجاجی ریلی پر خود کش حملے میں ان کی جان بال بال بچی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ان کے پاس امریکہ اور یورپ ہجرت کر جانے کے بہت مواقع تھے مگر وہ افغانستان میں رہ کر اسے بہتر بنانا چاہتے۔ لیکن اب صورتحال کچھ ایسی ہے کہ وہ روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ان کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح ملک چھوڑنے میں کامیاب ہوجائیں۔

کابل میں امیریکن یونیورسٹی آف افغانستان اپنے کئی طالبعلموں کو ملک سے باہر نکالنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔

ایک طالبعلم نے بتایا کہ کس طرح انخلا کی ڈیڈ لائن سے دو روز قبل یونیورسٹی کی جانب سے طالبعلموں کو ائیرپورٹ پہنچانے والی بس گھنٹوں ایئرپورٹ تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرتی رہی مگر کامیاب نا ہوپائی۔

یہ طالبعلم اب پچھلے ایک ماہ سے اپنی بیوی اور دو بچوں کی ساتھ یونیورسٹی کے تحت کسی دوسری فلائٹ میں جگہ حاصل کرنے کے انتظار میں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان سے نکلنے والے افراد کی مدد کرنے والی خاتون

دوسری جانب پاکستان کے اسلام آباد ائیرپورٹ پر امیریکن یونیورسٹی کے کئی طالبعلم پہنچے جنہیں اب یہاں سے سینٹرل ایشیا کی امیریکن یونیورسٹی میں داخل کیا جائے گا۔

اپنے گھر والوں سے جدا ہوئی اکیس سالہ طالبہ مینا کی آنکھوں میں اس وقت آنسو آگئے جب ایئرپورٹ پر کسی افسر نے طالبعلموں سے بدتمیزی سے اونچی آواز میں بات کی۔

مینا افغانستان چھوڑتے وقت اپنے سامان میں وہ قلم رکھنا نہیں بھولیں جس پر ان کے ملک کا جھنڈا بنا ہوا تھا۔ یہ قلم دکھاتے ہوئے مینا نے کہا کہ " مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں پتہ، میرے بہت سے خواب تھے لیکن اب مجھے کچھ نہیں پتہ"۔

مینا بات کرتے ہوئے رو پڑیں اور کہا کہ "ہم نے اپنے خواب جلا دیئے ہیں، ہم ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں"۔