|
نئی دہلی — بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ اگر تشدد سے متاثرہ بنگلہ دیش کے لوگ مغربی بنگال آنا چاہیں تو وہ ان کو پناہ دیں گی۔
ممتا بنر جی نے یہ پیش کش اتوار کو کلکتہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری ریاست کے دروازے ہمسایہ ملک کے پریشان حال لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں بنگلہ دیش کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں بولنا ہے کیوں کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اس بارے میں جو کچھ کہنا ہو گا، وہ مرکزی حکومت کہے گی۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر بنگلہ دیش کے بے یار و مددگار لوگ ان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو وہ انھیں پناہ دیں گی۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں سرکاری کوٹا سسٹم کے خلاف ایک ہفتے سے احتجاج جاری تھا۔ اس احتجاج میں مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کے لیے مختص 30 فی صد کوٹا ختم کیا جائے۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش: کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج میں ہلاکتیں 114 ہو گئیں، حکومت کا دو روزہ عام تعطیل کا اعلانوزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے 2018 میں احتجاج کے بعد کوٹا سسٹم ختم کر دیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اسے بحال کر دیا جس کے بعد کل کوٹا 56 فی صد رکھا گیا جس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور ملک بھر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 114 افراد ہلاک ہوئے
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اتوار کو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کوٹے کو پانچ فی صد تک کرنے کا حکم دیا اور اپنے فیصلے میں کہا کہ 93 فی صد ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں گی۔
ممتا بنر جی نے ممکنہ انسانی بحران کے تعلق سے پیش کردہ اپنی پیش کش کے جواز میں اقوام متحدہ کی قرارداد کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ہمسایہ ملک ایک دوسرے کے پناہ گزینوں کا احترام کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس معاملے میں محتاط رہنا چاہیے اور اس سلسلے میں ہونے والی کسی بھی اشتعال انگیزی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کا خون خرابہ تکلیف دہ ہے اور ان کا دل ہلاک ہونے والے طلبہ کے غم میں مبتلا ہے۔
ممتا بنرجی نے بنگال کے ان شہریوں کی بھی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی جن کے رشہ دار بنگلہ دیش میں تشدد کا شکار ہیں یا وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے ان بنگلہ دیشی شہریوں کی بھی مدد کی پیشکش کی جو وہاں چلے تو گئے ہیں لیکن اب ان کے لیے واپس جانا مشکل ہو رہا ہے۔
انھوں نے بنگال کے باشندوں سے اپیل کی کہ وہ بنگلہ دیش کے حالات پر مشتعل نہ ہوں۔ انھوں نے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا۔
ادھر بھارت نے جمعے کو کہا کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وہاں کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن چوں کہ بنگلہ دیش میں 15000 بھارتی رہتے ہیں لہٰذا وہ صورت حال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر بھارتی باشندوں کے تحفظ کے پیشِ نظر اس معاملے کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔
ان کے بقول بھارت نے طلبہ سمیت وہاں رہائش پذیر بھارتی باشندوں کے تحفظ کے پیش نظر ان کے لیے سفری ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن نے ہیلپ نمبر جاری کیے ہیں۔
ان کے بقول بھارتی ہائی کمیشن مستقل بنیادوں پر اطلاعات فراہم کر رہا ہے اور ہم بھی اطلاعات دے رہے ہیں۔ ہم وہاں رہ رہے بھارتی شہریوں کے اہل خانہ سے کہیں گے کہ وہ ہماری اطلاعات پر نظر رکھیں۔ ہم بنگلہ دیش میں تمام بھارتی شہریوں کو مدد فراہم کرنے کے عہد کے پابند ہیں۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟یاد رہے کہ ایڈوائزری میں تمام بھارتی باشندوں سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور غیر ضروری سفر سے پرہیز کریں۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق بنگلہ دیش سے 1000 سے زائد بھارتی شہری وہاں جاری تشدد کے پیش نظر بھارت واپس آ چکے ہیں۔ وہ مختلف راستوں سے واپس آئے ہیں جب کہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ ایئرپورٹ سے طیارے کے ذریعے 200 طلبہ واپس پہنچے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن اور چٹاگانگ، راج شاہی، سلہٹ اور کھلنا میں اسسٹنٹ ہائی کمیشن بنگلہ دیش کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کے رابطے میں ہیں اور انھیں ضروری مدد فراہم کر رہے ہیں۔
نیپال اور بھوٹان کے ان طلبہ کی بھی مدد کی جا رہی ہے جو بھارت کے راستے سے اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں۔
وزارتِ خارجہ بھارتی شہریوں کی محفوظ واپسی کے لیے شہری ہوا بازی کی وزارت، امیگریشن، بندرگاہوں اور بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی انتظامیہ کے رابطے میں ہے۔ بھارت کی انتظامیہ بھارتی شہریوں کی واپسی کے لیے بنگلہ دیشی انتظامیہ کے رابطے میں بھی ہے۔