’اور آخرِ کار، وزیر اعظم نواز شریف نے پُرجوش عوام کی اکثریت کا فیصلہ مان لیا اور 28 مئی کو بلوچستان کے مقام چاغی پر یہ دھماکے کئے‘
واشنگٹن —
سال 1997ء تھا۔ رمضان المبارک کی آخری تاریخیں تھیں۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار۔ اسلام آباد ائرپورٹ سےخراماں خراماں، شاہراہِ فیصل کی جانب رواں دواں تھی۔ ہماری گاڑی بھی پیچھے پیچھے تھی۔
پھر یہ قافلہ فیصل مسجد سے ذرا پہلے، بائیں جانب ایف سیکٹر کی طرف مڑگیا۔ اس گلی میں چوہدری شجاعت حسین کا گھر تھا۔ وہاں پہنچ کر یہ گاڑیاں رک گئیں۔ سب سے آگے والی گاڑی سےانتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے والے مسلم لیگ کے لیڈر، میاں نواز شریف نیچے اترے، جو اپنی کامیابی کے بعد عمرے کی ادائیگی کے لئےسعودی عرب تشریف لے گئے تھے اور شکرانہ ادا کرنےکے بعد وطن واپس لوٹے تھے۔ اور قیام تھاچوہدری شجاعت کے گھر، جو اُس زمانے میں اتحادی تھے۔ صوفے پر بالکل ساتھ بیٹھے تھے۔ انکے ساتھ ہی شیخ رشید بیٹھے تھے،جو پنڈی سے الیکشن جیتے تھے۔پنڈی کے دو اور لیڈر، راجہ تنویر اور چو ہدری بشارت بھی موجود تھے۔ پرویز الٰہی بھی تھے۔کوئی آٹھ دس لوگ اور تھے اس ڈرائینگ روم میں۔پوری پنجاب کی قیادت اکٹھی تھی ۔بڑا خوبصورت منظر تھا۔
عمرے کی مبارک باد سے باتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انتخابات میں تاریخی کامیابی پر بات آگئی۔
میاں صاحب بہت مسرور تھے اور روایتی انکساری سے سب کا شکریہ ادا کر رہے تھے، خاص طور پر وہ عمرے کی ادائیگی اور وہاں اپنے استقبال اورشاہ سے اپنی ملاقات کا ذکر بہت خوشی سے کر رہے تھےاور اپنی جیت کو بار بار اللہ کی خاص مہربانی قرار دے رہے تھے۔ ساتھ ہی، پنجابی میں کہنے لگے(کم بوہت زیادہ اے تے ٹائم کوئی نئیں، بس ہُن چل سو چل ہے) یعنی، رکنے کا وقت نہیں اور بس کام ہی کام ہے۔
وہاں موجود لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ شاید، کچھ لوگوں نے تو اسے وقتی بات قرار دی ہو۔ لیکن، مجھے ان کی اِس بات میں بڑا عزم اور یقین نظر آیا۔ اس لئے کہ وہ تازہ تازہ دیارِ حرم اور دیارِ نبی سے لوٹے تھے اور جس بھاری تعداد میں ان کو عوام کا مینڈیٹ ملا تھا، اور دوبارہ اقتدار کی مسند پر بٹھایا تھا اس نے ان میں ایک خاص اعتماد پیدا کر دیا تھا۔ پھر یہ کہ ان کا ستارہ بُرج جدی، یعنی Capricorn ہے، جو ہار نہیں مانتے اور مسلسل جدوجہد سے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
اور پھر ہم نے دیکھا کہ موٹروے کا منصوبہ، جو اُن کے پہلے دور میں شروع ہوا تھا، اور بے نظیر دور میں رک رک کر چلتا رہا، ایک بار پھر بڑے زور و شور سے شروع ہوا اور جب پایہٴ تکمیل کو پہنچا تو میاں صاحب نے اسلام آباد سے ایک بڑے جلوس کی شکل میں اسلام آباد سے لاہور تک اس نئی موٹروے پر سفر کیا، جو صبح سے رات تک جاری رہا۔اور شاید، آپکو یاد ہو اس کے اختتام پر ایک بڑی تقریب شاہدرہ پر منعقد ہوئی جس سے ٹی وی کے معروف اور شعلہ بیاں مقرر طارق عزیز نے بھی بڑے جوش میں خطاب کیا۔ اُس وقت میں، وہ میاں صاحب کے ایک بڑے حامی تھے۔
اِس جلوس کا آنکھوں دیکھا حال، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیوژن نے، براہِ راست نشر کیا۔ اس کے لئے جگہ جگہ بوتھ بنائے گئے تھے۔
بھیرہ کے سیکشن پر بوتھ سے کومنٹری کی ذمہ داری میری تھی۔
ہم نے اپنےبوتھ میں چوہدری شجاعت سے اور کئی دوسرے وزراٴ سے انٹرویو کئے ان میں اسفند یار ولی بھی شامل تھے، جو اُن دنوں وزیرِ تعمیرات تھے اور اس موٹر وے کی نگرانی بھی ان کے ذمہ تھی۔ اس دوران، ان کی بڑی دلچسپ نیوز ریل ٹی وی پر چلتی تھی جس میں وہ روزانہ اس شاہراہ کا دورہ کرتے اور کسی جگہ گاڑی روک کر سڑک پر بیٹھ جاتے اور اس کا معائنہ کرتے۔ جب وہ ہمارے بوتھ میں آئے تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ خان صاحب وہ آپ سڑک پر بیٹھ کر کیا دیکھتے تھے۔ بڑی سادگی سے بولےکہ یارا، میں دیکھتا تھا کہ سڑک سیدھی ہے کہ نہیں۔ کہیں کوئی جمپ شمپ تو نہیں رہ گیا۔
میاں صاحب کا قافلہ بھی کچھ دیر کے لئے ہمارے بوتھ کے سامنے رکا۔ وہاں موجود لوگوں سے انہوں نے خطاب کیا۔ اور پھر آگے چل دئے۔ اور اس طرح رُکتا رُکاتا یہ کارواں رات گئے لاہور پہنچا۔ اور جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں، وہاں ایک شاندار تقریب ہوئی اور یوں ٕمیاں صاحب کی پہلی بڑی کامیابی کا جشن اختتام پذیر ہوا۔
اپنے اس دوسرے دور میں میاں نواز شریف کا دوسرا بڑا فیصلہ ایٹمی دھماکے کا اعلان تھا۔
صورتِ حال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا تھا اور پاکستان مخمصے میں تھا کا کیا کرے۔ ایک رائے یہ تھی کہ دھماکے کا جواب زوردار دھماکے سے کیا جائے، ورنہ بھارت کے سامنے ھیٹی ہو جائیگی، اور دوسرا گروپ اس کا مخالف تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ سرمایہ ملکی ترقی پر خرچ ہونا چاہئیے اور جوہری اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ دونوں طرف دلائل بڑے ٹھوس اور جاندار تھے اور فیصلہ مشکل تھا۔ گیند وزیرِ اعظم کے کورٹ میں تھی۔
اور آخرِ کار، وزیر اعظم نواز شریف نے پُرجوش عوام کی اکثریت کا فیصلہ مان لیا اور 28 مئی کو بلوچستان کے مقام چاغی پر یہ دھماکے کئے گئے اور یوں بھارت کے ساتھ ساتھ، پاکستان بھی جوہری ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔
اس روز یہ خبر ٹی وی خبرنامے میں پڑھتے ہوئے میں بھی فرطِ جذبات سے مغلوب تھا کہ یہ نہ صرف پاکستان کے لئے، پاکستانی عوام کے لئے، بلکہ خود میری پاکستان کی نشریاتی زندگی کی سب سے بڑی خبر تھی۔
خبریں پڑھ کر میں جب نیوز روم کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو اتفاق سے وزیراعظم صاحب، اسی وقت وی آئی پی سٹوڈیو سے، تاریخی تقریر ریکارڈ کرانے کے بعد، باہر آرہے تھے۔ مجھے اوپر سے آتے دیکھا تو ایک لمحے کو مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔میں نے بھی اچانک ان کو دیکھا تو خوشی سے آگے بڑھا اور باوجودیکہ سیکیورٹی نے اُن کو گھیرا ہوا تھا، انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکتے ہوئے، بڑی محبت سے مجھے گلے لگایا اور اتنی اہم خبر پڑھنے پر مبارکباد دی۔
پاکستان کے لئے یہ بہت تاریخی دن تھا اور اُس وقت ایسا لگتا تھا کہ نواز شریف، جنہوں نے اتنے بڑے کارنامے کئے ہیں ، اب تاحیات وزیرِ اعظم رہیں گے۔ لیکن، ایسا نہ ہوا اور بہت جلد ان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا۔
باقی کہانی آپ کو معلوم ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اور، اب تقریباًٍ 14 سال کے بعد وہ پھر ایوانِ اقتدار میں پہنچے ہیں۔ جدوجہد کرنے والا ستارہ جدّی ایک بار پھر عروج پر ہے اور اب میاں صاحب پر مذہبی رنگ زیادہ نمایاں ہے۔ انتخاب جیتنے کے بعد اپنی جماعت کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تلقین کی کہ اختلافات بھلا کر وہ عوام کی خدمت پر جُت جائیں، کیونکہ مخلوق خوش ہوگی تو اللہ خوش ہوگا اور پھر حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ سے پہلے خطاب میں انہوں نے اور باتوں کے علاوہ وزیروں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ ’آیت کریمہ‘ کا وِرد کریں اور کرائیں بھی۔
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسائل کا ایک سمندر ہے جسے عبور کرنا ہے اور یہ صرف انسانی کوششوں سے ہی نہیں، بلکہ خدا کی مدد سے ہی پورا ہو سکتا ہے اور ایک بار پھر، ٹہرنے اور سوچنے کا وقت نہیں ہے اور چل سو چل ہے۔
پھر یہ قافلہ فیصل مسجد سے ذرا پہلے، بائیں جانب ایف سیکٹر کی طرف مڑگیا۔ اس گلی میں چوہدری شجاعت حسین کا گھر تھا۔ وہاں پہنچ کر یہ گاڑیاں رک گئیں۔ سب سے آگے والی گاڑی سےانتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے والے مسلم لیگ کے لیڈر، میاں نواز شریف نیچے اترے، جو اپنی کامیابی کے بعد عمرے کی ادائیگی کے لئےسعودی عرب تشریف لے گئے تھے اور شکرانہ ادا کرنےکے بعد وطن واپس لوٹے تھے۔ اور قیام تھاچوہدری شجاعت کے گھر، جو اُس زمانے میں اتحادی تھے۔ صوفے پر بالکل ساتھ بیٹھے تھے۔ انکے ساتھ ہی شیخ رشید بیٹھے تھے،جو پنڈی سے الیکشن جیتے تھے۔پنڈی کے دو اور لیڈر، راجہ تنویر اور چو ہدری بشارت بھی موجود تھے۔ پرویز الٰہی بھی تھے۔کوئی آٹھ دس لوگ اور تھے اس ڈرائینگ روم میں۔پوری پنجاب کی قیادت اکٹھی تھی ۔بڑا خوبصورت منظر تھا۔
عمرے کی مبارک باد سے باتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انتخابات میں تاریخی کامیابی پر بات آگئی۔
میاں صاحب بہت مسرور تھے اور روایتی انکساری سے سب کا شکریہ ادا کر رہے تھے، خاص طور پر وہ عمرے کی ادائیگی اور وہاں اپنے استقبال اورشاہ سے اپنی ملاقات کا ذکر بہت خوشی سے کر رہے تھےاور اپنی جیت کو بار بار اللہ کی خاص مہربانی قرار دے رہے تھے۔ ساتھ ہی، پنجابی میں کہنے لگے(کم بوہت زیادہ اے تے ٹائم کوئی نئیں، بس ہُن چل سو چل ہے) یعنی، رکنے کا وقت نہیں اور بس کام ہی کام ہے۔
وہاں موجود لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ شاید، کچھ لوگوں نے تو اسے وقتی بات قرار دی ہو۔ لیکن، مجھے ان کی اِس بات میں بڑا عزم اور یقین نظر آیا۔ اس لئے کہ وہ تازہ تازہ دیارِ حرم اور دیارِ نبی سے لوٹے تھے اور جس بھاری تعداد میں ان کو عوام کا مینڈیٹ ملا تھا، اور دوبارہ اقتدار کی مسند پر بٹھایا تھا اس نے ان میں ایک خاص اعتماد پیدا کر دیا تھا۔ پھر یہ کہ ان کا ستارہ بُرج جدی، یعنی Capricorn ہے، جو ہار نہیں مانتے اور مسلسل جدوجہد سے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
اور پھر ہم نے دیکھا کہ موٹروے کا منصوبہ، جو اُن کے پہلے دور میں شروع ہوا تھا، اور بے نظیر دور میں رک رک کر چلتا رہا، ایک بار پھر بڑے زور و شور سے شروع ہوا اور جب پایہٴ تکمیل کو پہنچا تو میاں صاحب نے اسلام آباد سے ایک بڑے جلوس کی شکل میں اسلام آباد سے لاہور تک اس نئی موٹروے پر سفر کیا، جو صبح سے رات تک جاری رہا۔اور شاید، آپکو یاد ہو اس کے اختتام پر ایک بڑی تقریب شاہدرہ پر منعقد ہوئی جس سے ٹی وی کے معروف اور شعلہ بیاں مقرر طارق عزیز نے بھی بڑے جوش میں خطاب کیا۔ اُس وقت میں، وہ میاں صاحب کے ایک بڑے حامی تھے۔
اِس جلوس کا آنکھوں دیکھا حال، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیوژن نے، براہِ راست نشر کیا۔ اس کے لئے جگہ جگہ بوتھ بنائے گئے تھے۔
بھیرہ کے سیکشن پر بوتھ سے کومنٹری کی ذمہ داری میری تھی۔
ہم نے اپنےبوتھ میں چوہدری شجاعت سے اور کئی دوسرے وزراٴ سے انٹرویو کئے ان میں اسفند یار ولی بھی شامل تھے، جو اُن دنوں وزیرِ تعمیرات تھے اور اس موٹر وے کی نگرانی بھی ان کے ذمہ تھی۔ اس دوران، ان کی بڑی دلچسپ نیوز ریل ٹی وی پر چلتی تھی جس میں وہ روزانہ اس شاہراہ کا دورہ کرتے اور کسی جگہ گاڑی روک کر سڑک پر بیٹھ جاتے اور اس کا معائنہ کرتے۔ جب وہ ہمارے بوتھ میں آئے تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ خان صاحب وہ آپ سڑک پر بیٹھ کر کیا دیکھتے تھے۔ بڑی سادگی سے بولےکہ یارا، میں دیکھتا تھا کہ سڑک سیدھی ہے کہ نہیں۔ کہیں کوئی جمپ شمپ تو نہیں رہ گیا۔
میاں صاحب کا قافلہ بھی کچھ دیر کے لئے ہمارے بوتھ کے سامنے رکا۔ وہاں موجود لوگوں سے انہوں نے خطاب کیا۔ اور پھر آگے چل دئے۔ اور اس طرح رُکتا رُکاتا یہ کارواں رات گئے لاہور پہنچا۔ اور جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں، وہاں ایک شاندار تقریب ہوئی اور یوں ٕمیاں صاحب کی پہلی بڑی کامیابی کا جشن اختتام پذیر ہوا۔
اپنے اس دوسرے دور میں میاں نواز شریف کا دوسرا بڑا فیصلہ ایٹمی دھماکے کا اعلان تھا۔
صورتِ حال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا تھا اور پاکستان مخمصے میں تھا کا کیا کرے۔ ایک رائے یہ تھی کہ دھماکے کا جواب زوردار دھماکے سے کیا جائے، ورنہ بھارت کے سامنے ھیٹی ہو جائیگی، اور دوسرا گروپ اس کا مخالف تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ سرمایہ ملکی ترقی پر خرچ ہونا چاہئیے اور جوہری اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ دونوں طرف دلائل بڑے ٹھوس اور جاندار تھے اور فیصلہ مشکل تھا۔ گیند وزیرِ اعظم کے کورٹ میں تھی۔
اور آخرِ کار، وزیر اعظم نواز شریف نے پُرجوش عوام کی اکثریت کا فیصلہ مان لیا اور 28 مئی کو بلوچستان کے مقام چاغی پر یہ دھماکے کئے گئے اور یوں بھارت کے ساتھ ساتھ، پاکستان بھی جوہری ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔
اس روز یہ خبر ٹی وی خبرنامے میں پڑھتے ہوئے میں بھی فرطِ جذبات سے مغلوب تھا کہ یہ نہ صرف پاکستان کے لئے، پاکستانی عوام کے لئے، بلکہ خود میری پاکستان کی نشریاتی زندگی کی سب سے بڑی خبر تھی۔
خبریں پڑھ کر میں جب نیوز روم کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو اتفاق سے وزیراعظم صاحب، اسی وقت وی آئی پی سٹوڈیو سے، تاریخی تقریر ریکارڈ کرانے کے بعد، باہر آرہے تھے۔ مجھے اوپر سے آتے دیکھا تو ایک لمحے کو مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔میں نے بھی اچانک ان کو دیکھا تو خوشی سے آگے بڑھا اور باوجودیکہ سیکیورٹی نے اُن کو گھیرا ہوا تھا، انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکتے ہوئے، بڑی محبت سے مجھے گلے لگایا اور اتنی اہم خبر پڑھنے پر مبارکباد دی۔
پاکستان کے لئے یہ بہت تاریخی دن تھا اور اُس وقت ایسا لگتا تھا کہ نواز شریف، جنہوں نے اتنے بڑے کارنامے کئے ہیں ، اب تاحیات وزیرِ اعظم رہیں گے۔ لیکن، ایسا نہ ہوا اور بہت جلد ان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا۔
باقی کہانی آپ کو معلوم ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اور، اب تقریباًٍ 14 سال کے بعد وہ پھر ایوانِ اقتدار میں پہنچے ہیں۔ جدوجہد کرنے والا ستارہ جدّی ایک بار پھر عروج پر ہے اور اب میاں صاحب پر مذہبی رنگ زیادہ نمایاں ہے۔ انتخاب جیتنے کے بعد اپنی جماعت کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تلقین کی کہ اختلافات بھلا کر وہ عوام کی خدمت پر جُت جائیں، کیونکہ مخلوق خوش ہوگی تو اللہ خوش ہوگا اور پھر حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ سے پہلے خطاب میں انہوں نے اور باتوں کے علاوہ وزیروں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ ’آیت کریمہ‘ کا وِرد کریں اور کرائیں بھی۔
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسائل کا ایک سمندر ہے جسے عبور کرنا ہے اور یہ صرف انسانی کوششوں سے ہی نہیں، بلکہ خدا کی مدد سے ہی پورا ہو سکتا ہے اور ایک بار پھر، ٹہرنے اور سوچنے کا وقت نہیں ہے اور چل سو چل ہے۔