ریڈیو اور ٹی وی فن کی دنیا تھی جہاں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا،یہاں کام کرنا کوئی ملازمت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی آنے یا جانے کا وقت دیکھتا تھا ۔آگئے تو آگئے جب کام ختم ہو اتو گھر چلے گئے محض سونے اور گھر والوں کو شکل دکھانے کہ ہم زندہ ہیں اور موجود ہیں،فکر نہ کرنا۔
کام نہ بھی ہو تو باہر لان میں ،کسی درخت کے نیچے بیٹھک جمی ہے،ہنسی مذاق ،جملے بازی،لطیفے چل رہے ہیں۔کسی نئے ڈرامے یا پروگرام کی بات ہو رہی ہے اور کسی پرانے ڈرامے کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں ۔ایسے میں بڑے بڑے فنکار ،موسیقار ،اداکار بھی بیٹھے ہیں ،چائے اور سگریٹ کا دور چل رہا ہے
یہیں ہم نے خوبصورت فریدہ خانم، مہذب اقبال بانو، اور بنجارن ریشماں کے علاوہ اخلاق احمد اور پرویز مہدی جیسے نوجوانوں کو دیکھا اور سنا اور پھر سُروں کے بادشاہ مہدی حسن خان کو سٹوڈیو میں ریاض کرتے سنا۔ اور جب انہوں نے الاپ لگایا تو حقیقتاً سٹوڈیو کی دیواروں میں ارتعاش پیدا ہوگیا۔
کیا جادوئی آوازیں تھیں۔ ’’ڈھونڈو گے انہیں ملکوں ملکوں۔۔۔ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘۔
اسی لان میں ریڈیو پنڈی کے استاد ڈرامہ آرٹسٹ مرحوم نور احمد اپنی کاسٹ کے ساتھ ڈرامے کی ریہرسل کرتے تھے۔ مشہور فنکاروں شاہدہ کاظمی، نیر کمال، ستارہ زیدی، اختر جہاں، ظفر اکبر آبادی کے ساتھ ہم بھی اکثر اس میں شریک ہوتے۔ خواتین میں سے کوئی قیمہ، آلو اور پراٹھے لے آتی تھیں۔ چائے اور جوس کینٹین سے آجاتا۔ اور کام کے ساتھ ساتھ پکنک بھی ہوجاتی۔ پنڈی ریڈیو کی ایک بہت خوبصورت آواز سلمان المعظم، میرے پیارےدوست ہمایوں بشیر اور برکت اللہ اور جناب اظہار کاظمی جو اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے وہ بھی دعوت میں شریک ہو جاتے۔ کیا دن تھے۔ سب خواب لگتا ہے۔
یہاں ادیبوں شاعروں اور ہر قسم کی شخصیتوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے اور وزیروں، کبیروں، یہاں تک کے صدر اور وزرائے اعظم کو بھی دیکھنے اور ان کی اچھی بری باتیں نوٹ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
بڑے بڑے دلچسپ واقعات ہوتے ہیں۔ کچھ یاد رہ جاتے ہیں اور بہت سے بھول جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ یحیٰ خان کے حوالے سے مجھے یاد آیا جو مزیدار بھی ہے اور اپنے اندر معانی بھی رکھتا ہے۔ لیکن اسے بیان کرنے سے پہلے پس منظر بتانا ضروری ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب یحیٰ خان نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں صدر ایوب خان کا دور ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔
ان کے دس سالہ دور کو ترقی اور خوشحالی کا تاریخی دور مانا جاتا ہے۔ ملک میں بظاہر سکون بھی تھا چھوٹی موٹی سیاسی یورش اٹھتی بھی تھی تو دبا دی جاتی تھی ’اور، راوی چین ہی چین لکھتا تھا‘۔
ایسے میں 1965 کی پاک بھارت جنگ چھڑ گئی۔ اس سترہ روزہ جنگ میں دونوں طرف سے کامیابی کے بلند بانگ دعوے کئے گئے مگر تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ پاکستان میں ایک سیاسی بے چینی، افراتفری او بالآخر ایوب خان کے زوال کا سبب بنی۔
خطے اور دنیا کی اس وقت کی ایک بڑی طاقت روس نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کروا دیا۔ تاشقند میں طے پانے والا یہ معاہدہ پاکستانی عوام کی امنگوں کے بر خلاف تھا؛ جو اپنے طور پر جنگ میں فتح سے سرشار تھے اور ان کے خیال میں میدان میں جیتی جنگ میز پر ہار دی گئی تھی۔
معاہدے کے دوران، اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی بجھے بجھے سے، الگ تھلگ اور خاموش سے نظر آئے۔ لگتا تھا کہ وہ بھی اس سمجھوتے پر خوش نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے تو اقوام متحدہ میں ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا فلک شگاف نعرہ لگایا تھا۔ اور نوجوان اور پُرجوش بھٹو کی اس تقریر نے لوگوں کے دلوں کو گرما دیا تھا اور انہوں نے دل ہی دل میں ان کو اپنا ہیرو مان لیا تھا۔ اب جو اچانک یہ جنگ ختم ہوگئی اور تاشقند میں یہ معاہدہ ہوگیا تو عوام کو یقین ہوگیا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا ہے اور بھٹو بھی اس سے خوش نہیں ہے اور وہ ایوب خان کے خلاف ہے۔
ساتھ ہی، ایوب خان نے اپنا ’عشرہٴ اصلاحات‘ منانے کا اعلان کر دیا۔ لوگ پہلے ہی برہم بیٹھے تھے۔ اس اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
جلسے، جلوس اور حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے۔ تو ایوب خان نے بھٹو کو جن سے وہ پہلے ہی ناخوش تھے، وزارت سے نکال دیا۔
اسی دوران، ایک حادثہ ہوا کہ راولپنڈی کے ایک پولی ٹکنیک کالج کا طالب علم ایک مظاہرے کے دوران مارا گیا جس پر طلبا مشتعل ہوگئے اور احتجاج پُرتشدد ہو گیا۔
بھٹو اس وقت راولپنڈی کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں مقیم تھے کہ طلباء کا ایک وفد ہوٹل پہنچا جس کی قیادت ایک سٹوڈنٹ لیڈر، عبدالرشید شیخ کر رہے تھے جو بعد میں مشہور وکیل بنے۔ یاد رہے کہ یہ موجودہ سیاستدان، شیخ رشید احمد کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ ایک اور عبدالرشید شیخ تھے۔ اور ان کے ساتھ میرے دوست نواز رضا تھے جو اس وقت گورنمنٹ کالج اصغر مال کی یونین کے جنرل سیکریٹری تھے اور یہ کالج طلبا کی تحریکوں کا مرکز بن چکا تھا۔ نواز رضا آج کل مشہور صحافی ہیں۔ انہوں نے بھٹو کو اپنی احتجاجی تحریک کی قیادت کی دعوت دی۔
بھٹو صاحب نوجوانوں کے اصرار پر جب ہوٹل سے باہر آئے تو اپنا والہانہ استقبال دیکھ کر حیران رہ گئے۔ طلباء نے انہیں اپنے درمیان پا کر پُرجوش نعرے لگائے۔ انہیں کندھوں پر اٹھا لیا۔ بھٹو نے وہاں تقریر کی اور وہیں سے ان کی ایوب حکومت کے خلاف صحیح معنوں میں تحریک شروع ہوئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ایک لیڈر کی حیثیت سے سورج طلوع ہوچکا تھا اور ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا۔
دوسری طرف مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان ایک زوردار لیڈر بنے ہوئے تھے اور ان کی ایوب خان اور مغربی پاکستان کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔
اور جب ایوب خان کو ’ڈیڈی‘ کہنے والا ’زلفی‘ بھی انکے خلاف نعرے لگانے والوں میں شامل ہوگیا تو، ’مردِ آہن ٹوٹ گیا‘۔
دس سال تک راج کرنے والا بے تاج بادشاہ، ایوب خان عوام کے ہاتھوں شکست کھا چکا تھا۔ ان کی بیماری کی خبریں آنا شروع ہوگئیں اور محسوس ہونے لگا کہ وہ کمزور ہوگئے ہیں۔
یہی وقت تھا جب فوج کے کمانڈر ان چیف، یحیٰ خان صدارتی محل میں داخل ہوئے اور اپنے پیشرو کو بڑی عزت و آبرو اور خاموشی سے رخصت کر دیا؛ کیونکہ وہ ان کے سینئر جنرل بھی تھے۔ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ کوئی خون خرابہ نہیں ہوا سب کام ، خیال ہے کہ سکون سے ہوگیا۔
اور پھر اسی روز ریڈیو کی ایک ٹیم کو پریزیڈنٹ ہاؤس بلایا گیا۔ سٹوڈیو سے باہر ریکارڈنگ کرنے والی ٹیم کو آؤٹ براڈکاسٹ یا ’اوبی ٹیم‘ کہا جاتا تھا۔ جو ایک بڑی وین لے کر جاتی تھی۔ اس وین میں پورا سٹوڈیو نصب ہوتا تھا اور پوری ریکارڈنگ اس کے ذریعے ہو جاتی تھی۔
تو یہ پوری ٹیم سٹیشن ڈائرکٹر کے جی علی، انجینئر رفیق اور ہمارے ساتھی اسد نذیر کے ہمراہ ایوانِ صدر روانہ ہوئی۔ اسد نذیر اس وقت پروڈیوسر تھے اور ایسے اہم کاموں کی ذمےداری انہیں ہی سونپی جاتی تھی۔
غرض انہوں نے نحیف و نزار، ایوب خان کا قوم کے نام آخری خطاب ریکارڈ کیا، جس میں انہوں نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا اور پھر فوج کے کمانڈر انچیف یحیٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔ انہوں نے دوسرے روز ملکی ٹیلیوژن اور ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور جلد انتخاب کروانے اور جمہوری حکومت بنانے کا یقین دلایا۔ عوام نے جو روز روز کے ہنگاموں اور گھیراؤ جلاؤ سے تھک چکے تھے، کسی قدر سکھ کا سانس لیا اور اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا۔
اخباروں، ریڈیو اور ٹی وی نے حسب روایت دوسرے ہی دن سے نئے بادشاہ کے قصیدے الاپنے شروع کر دئے۔ ہم بھی شام کو اپنی ڈیوٹی پر پہنچے تو لان میں محفل جمی تھی۔ اور وہاں موجود اناؤنسر، پروڈیوسر، ڈیوٹی آفیسر اور بھی کچھ لوگ اپنی دانشوری مفت میں تقسیم کر رہے تھے؛ اور حالت حاضرہ پر بحث جاری تھی۔ کوئی نئی تبدیلی کو اچھا اور کوئی برا کہہ رہا تھا۔ اور خیال یہی تھا کہ جیسا کہ نئے صدر نے وعدہ کیا ہے، جلد انتخابات ہو جائیں گے اور سول حکومت بن جائے گی۔
یہ سیر حاصل بحث جاری تھی کے اچانک گیٹ کی طرف دیکھا کہ کچھ سینئر افسران داخل ہو رہے ہیں اور سٹوڈیو کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ بحث وہیں رک گئی اور خاموشی طاری ہوگئی کہ یہ بے وقت حملہ کیوں ہوا۔ سوچ کا مرحلہ جاری تھا کہ پھر بڑا گیٹ کھول دیا گیا اور وہاں سے بڑی بڑی کالی گاڑیاں نمودار ہوئیں جو سٹوڈیو کی قریبی عمارت کے سامنے آکر رک گئیں۔
دروازے کھلے۔ ان میں سے خواتین اور لڑکیاں اترنا شروع ہوئیں۔ کچھ کے ہاتھوں میں ڈھول اور موسیقی کا سامان بھی تھا۔ وہ افسران جو ابھی اندر گئے تھے فوراً باہر آئے اور ان خواتین کو سٹوڈیو کی طرف لے کر چلے۔ اب ہم سب بھی تشویش کی حالت میں ان کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔
سب خواتین موسیقی والے سٹوڈیو میں جمع ہوگئیں اور گھیرا مار کر اس طرح بیٹھ گئیں جیسے شادی یا مہندی کے گیت گانے کے لئے بیٹھتی ہیں۔
جلد معلوم ہوگیا کہ یہ نئے صدر یحیٰ خان کی فیملی ہے اور بیچ میں بیٹھی ان کی بہن ہیں جو انہی کے ڈیل ڈول جیسی تھیں۔ ساتھ میں بھانجیاں، بھتیجیاں اور سہیلیاں تھیں اور کچھ گیت ریکارڈ کروانے آئی تھیں۔
سب انتظامات مکمل ہوئے تو انہوں نے پنجابی ٹپّوں کے انداز میں خوشی کے گیت گانا شروع کئے جن میں سے ایک مشہور پنجابی گیت: ’ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘ کی طرز پر تھا۔۔’یحیٰ ساڈا صدر بنیا‘۔
سب خوشی میں مست گا رہی تھیں۔ اور رات گئے تک یہ محفل جاری رہی۔
ہم سب آہستہ آہستہ باہر آگئے اور پھر ایک دوست نے بڑے دانشورانہ انداز میں سرگوشی کی کہ لگتا ہے نئے صدر بھی جلد جانے والے نہیں۔
سب خاموش تھے۔ کئی برس کی جدّوجہد کے بعد ایک موہوم سی امید بندھی تھی۔ مگر محسوس یہ ہوا کہ جمہوریت کی منزل ایک بار پھر دور ہوگئی ہے۔ اور صدر کا خاندان خوشی کے گیت گا رہا ہے کہ:
’یحیٰ ساڈا صدر بنیا، ویر ساڈا گھڑی چڑھیا‘۔