اور، دوسرے ہی بلیٹن میں فوج کی طرف سے متضاد بیان آنے لگے۔ پھر پتہ چلا کہ فوج پی ٹی وی پہنچ چکی ہے اور خبروں کی نگرانی ہو رہی ہے۔ یہ ساری صورتحال بڑی گھمبیر تھی
واشنگٹن —
سابق صدر پرویز مشرف آجکل خبروں میں ’اِن‘ ہیں۔ پہلے اُنکی جلاوطنی ختم کرتے ہوئے کراچی پہنچنے کی خبریں آئیں،پھر الیکشن لڑنے، کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے اور مسترد ہونے کی خبریں آئیں اور پھر عدالت نے ضمانت کی درخواست نا منظور کرتے ہوئے انکی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔اور تازہ صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند ہیں ۔یہ سب پڑھتے ہوئے میرا ذہن ماضی کے اوراق پلٹنے لگا۔
کل ہی کی بات ہے کہ میں ’خبر نامہ‘ پڑھنے کے لئے ’پی ٹی وی‘ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔میرا معمول تھا کہ میں شام کا اردو اور انگریزی کا بلیٹن ضرور سنتا تھا، جو کہ میرے ہوم ورک کا حصہ تھا اور مجھے اندازہ ہو جاتا تھا کہ آج کے خبرنامے میں کیا خبریں شامل ہوں گی۔خاص طور پر شائستہ زید کی خبریں توجہ سے سنتا تھا،کیونکہ وہ لوگوں اور جگہوں کے تلفظ اور دوسرے واقعات کی ایسی صحیح ادائیگی کرتی تھیں کہ میری رہنمائی ہو جاتی تھی۔
شائستہ، معمول کے مطابق، زور و شور سےخبریں پڑھ رہی تھیں کہ اچانک وہ رکیں اور کسی نے اُن کے آگے ایک پرچہ رکھا۔ ایک نظر اُس پر ڈالنے کے بعد، اُنہوں نے اعلان کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ کو فوج کا نیا سربراہ مقرّر کیا ہے۔ بعد میں، معلوم ہوا کہ وہ چئیرمین پی ٹی وی پرویز رشید تھے جو سیدھے وزیراعظم ہاؤس سےاسٹوڈیو آئے اور ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پرچہ شائستہ زید کو پڑھنے کے لئے دیا۔پھر کچھ اور خبروں میں ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی کہ وزیراعظم صاحب ضیا الدین کو’جنرل‘ کےعہدے کی پٹیاں لگا رہے ہیں،جِن کے متعلق بعد میں مذاق بنتا رہا کہ وہ پنڈی صدر کی ایک فوجی وردیوں کی دوکان سے خرید کر لگائی گئی تھیں۔
خیر، ایک طرف یہ ڈرامہ چل رہا تھا کہ دوسری طرف فوج نے اپنی کاروائی کرتے ہوئے، ضیاالدین کو اپنا جنرل ماننے سے انکار کر دیا۔اور دوسرے ہی بلیٹن میں فوج کی طرف سے متضاد بیان آنے لگے۔ پھر پتہ چلا کہ فوج پی ٹی وی پہنچ چکی ہے اور خبروں کی نگرانی ہو رہی ہے۔یہ ساری صورتحال بڑی گھمبیر تھی۔میں نےصورتِ حال کی گھمبیرتا کا اندازہ لگاتے ہوئے ’پی ٹی وی‘ جانے کی تیاری شروع کردی،حالانکہ ابھی وقت نہیں ہوا تھا’خبرنامے‘ کا۔لیکن، مجھے معلوم تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس لئے، جلدی پہنچنا چاہئیے۔
میں ضیاالحق کا مارشل لا نہیں بھولا تھا ،جب ’ریڈیو پاکستان‘ پر صبح کی پہلی خبروں میں آدھا بلیٹن بھٹو صاحب کی گذشتہ رات کی سرگرمیوں پر مبنی تھا اورباقی آدھے میں اعلان تھا کہ مارشل لا لگا دیا گیا ہے اور بھٹو صاحب چند سیکنڈ میں سابق وزیرِاعظم ہو گئے۔ اور جب شام کوخبریں پڑھنے ٹی وی پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا اور فوجی ٹہل رہے تھے۔
اِسی طرح، معصوم وزیرِاعظم محمد خان جونیجوجاپان کے دورے پر گئے تو پوری شان کے ساتھ تھے،لیکن اُن کے آنے سے پہلے صدر ضیاالحق نے ایک پریس کانفرنس میں،جیب میں سے ایک چھوٹا سا پرچہ نکال کر انکی برطرفی کا اعلان کر چکے تھے۔اور بیچارے جونیجو صاحب کا ائرپورٹ پر خیر مقدم کرنے والا کوئی نہ تھا۔منظر بدل چکا تھا، سب اُن سے چُھپتے پھر رہے تھے۔
میری اِس تشویش اور جلدبازی سے والدہ کچھ پریشان ہوئیں اور بیوی نے بھی کہاکہ ، ’ایسا بھی کیا ہے۔ ذرا ٹہر جائیں۔دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے۔ایسا نہ ہو کے سڑک پر کسی ہنگامے میں پھنس جائیں‘۔
میں نے کہا، اِسی لئے تو جلدی جارہا ہوں ۔ہنگامے شروع ہو گئے تو پھرنہیں جا پاؤں گا۔خیر، میں جلدی جلدی تیار ہو کر نکلا۔والدہ نے پڑھتے پھوکتے رخصت کیا۔مونا بیگم بھی دوپٹہ سر پر لئےدبے لفظوں میں کچھ دعائیں کرتی دروازے تک آئیں۔یوں، لگا میں کسی
محاذ پر جا رہا ہوں۔
میں نے اُنہیں تسلّی دی کہ، ’ کچھ نہیں ہو رہا۔میں پہنچتے ہی فون کروں گا‘۔
سڑکیں خلافِ ٕمعمول سنسان تھیں۔شاید، لوگوں تک خبر پہنچی نہیں تھی یا پھر لوگ ابھی سکتے کے عالم میں تھے۔
گھر سے ٹیلی وژن کا راستہ پندرہ بیس منٹ کا تھا۔میں جلد ہی وہاں پہنچ گیا۔لیکن، ٹی وی سٹیشن کے دروازے پر کچھ دوسرا ہی منظر تھا۔میں جو سمجھ رہا تھا کہ لوگ بےخبر ہیں، وہ غلط تھا۔لوگ خبر سنتے ہی ٹی وی کی طرف بھاگے اور وہاں ایک ہجوم جمع تھا۔
گیٹ بند تھا اور اندر فوجی ہھتیار سنبھالے مستعد کھڑے تھے۔اندر جانے کی نہ کسی کو اجازت تھی اور نہ باہر آنے کی۔ بہت سے متوالے گیٹ پر چڑھ گئے ۔ کچھ دیواریں پھلانگنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیکن، سامنے بندوقیں سنبھالے فوجی انکے منتظر تھے۔لہٰذا، نہتّے شہری کیسے ہمت کرتے۔
نہ جانے یہ سب لوگ ٹی وی کیا دیکھنے آئے تھے۔شاید یہ پہلی جگہ تھی جہاں فوج پہنچی تھی اور اِس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
میں نے گاڑی دور کھڑی کرکے دروازے کے قریب جانے کی کوشش کی۔کچھ نوجوانوں نےپہچان کر زور زور سے فوجیوں کو پکارا کہ اِنہوں نے خبریں پڑھنی ہیں۔ اِنہیں جانے دو۔لیکن، فوجی بھائی صرف اپنے افسر کا حکم سنتا ہے اسلئے کوئی ٹس سے ٕمس نہ ہوا۔
میں نے باہر سڑک سے اندر نیوز روم میں دیکھا،جو پہلی منزل پر تھا ۔ اور باہر سے صاف نظر آرہا تھا ۔مجھے اپنے کچھ ساتھی دکھائی دئے۔ لیکن، وہ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ایک دو فوجی حضرات بھی ٹہلتے نظر آئے، جِس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔
میں پھر قریبی ہوٹل میریاٹ میں چلا آیا۔ چائے کا آرڈر دیا۔ جو گھر میں جلدی میں نہیں پی سکا تھا۔حالانکہ، تیار تھی۔ اِس دوران، ٹی وی پر بار بار خبریں آرہی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات سامنے آرہے تھے۔وہاں سے میں نے فون کرنے کی کوشش کی۔ لیکن، وہ فوجی اٹھاتے تھے اور کسی سے بات نہیں کراتے تھے۔بالآخر ایڈیٹر کا موبائیل فون ملا تو میں نے صورتحال بتائی۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ گیٹ پر آجائیں۔ میں کسی کو بھیجتا ہوں۔
خیر، ایک پروڈیوسر ایک فوجی کے ہمراہ وہاں آئے۔میری پوری تلاشی لی گئی اور مشکوک ثابت نہ ہونے پر اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
وہاں جو نیوزریڈر ساتھی تھے اُنہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ صبح سے پھنسے ہوئے تھے اور باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
نیوز روم کا منظر عجیب تھا۔میجر ،کپتان ٹہل رہے تھے۔سراسیمگی کا عالم تھا۔ لوگ سرگوشی میں بات کر رہے تھے۔کوئی ہنس نہیں رہاتھا۔ ہر خبر جیسے ہی تیار ہوتی،فوجی افسر اُس پر طائرانہ نظر ڈالتے، اور یوں، ظاہر کرتے کہ سب سمجھ رہے ہیں۔حکم یہ تھا کہ فوجی سربراہ کی تبدیلی کی خبر دوبارہ نہ جانے پائے۔اور حکومت کی سرگرمیوں کی خبریں بھی روک دی گئی تھیں۔پھر، اطلاعات آنی شروع ہوئیں کہ ایک فوجی دستہ وزیراعظم ہاؤس بھی پہنچا اور نواز شریف اور ساتھیوں کو نا معلوم مقام پر لیجایا گیا ہے۔
اب ہر خبر اور ہر بلیٹن کی اجازت فوج کے محکمہٴ تعلقاتِ عامہ سے لی جارہی تھی۔ بلکہ، محکمے کے کچھ لوگ آکر ڈائرکٹر نیوز ،شکور طاہر کے کمرے میں براجمان تھے۔ان میں سے کچھ شناسا چہرے بھی تھے۔لیکن، اُس وقت وہ پہچان بھی نہیں رہے تھے۔ اور بہت سنجیدگی کا اظہار کر رہے تھے۔
خیر، پہلا خصوصی بلیٹن تیار ہوا اور ہمارے حوالے ہوا۔ یہ ناخوشگوار فریضہ ہمیں انجام دینا پڑا ۔سٹوڈیو کی طرف چلے تو دیکھا کہ وردیوں والے ہر جگہ موجود ہیں۔
ماشل لا کی آمد آمد تھی اور ہم نے سوچ لیا کہ اب آئندہ فوجی سربراہ کی خبریں پڑھنا
ہونگی اور احتیاط کرنا ہوگی کہ کسی سویلین کا نام زبان سے نہ پھسل جائے۔
پھر وہ تمام خبریں جو آپ سنتے رہے ہیں آتی رہیں کہ جنرل مشرف ، جو سری لنکا کے دورے پر تھے ان کے طیارے کو زبردستی کسی اور مقام کی طرف موڑ دیا گیا۔ طیارے کو تباہ کرنے کی بھی کوشش کی گئ۔اُس کا ایندھن بھی ختم ہو رہا تھا اور وہ گرنے والا تھا،وغیرہ، وغیرہ۔
لیکن، یہ واضح ہو چکا تھا کہ تختہ الٹ دیا گیا ہے۔فوج اہم مقامات پر پہنچ چکی ہے۔اور، اب انتظار تھا کہ مشرف صاحب کب قوم سے خطاب کرتے ہیں۔
کافی انتظار کے بعد کوئی رات بارہ بجے فوج کی طرف سے بیان آنا شروع ہوا،جس میں حسبِ روایت ،سول حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ تھی اور اپنے اس اقدام کی صفائی پیش کی گئی تھی۔
ڈائرکٹر نیوز، شکور طاہر سمیت سب احباب نے انگریزی میں آنے والے متن کا ترجمہ شروع کیا اور مجھے دیا گیا کہ ایک نظر ڈال لو۔کافی دیر بعد بلیٹن تیار ہوا۔میں سٹوڈیو پہنچااور قوم کو یہ پیغام سنانا شروع کیا جو بڑی دیر سے اِس خبر کی منتظر تھی۔
کوئی ایک ڈیڑھ بجے کے قریب،جنرل صاحب کمانڈو کی وردی میں ٹی وی پر نمودار ہوئے اور تقریر میں تقریباًٍ وہی باتیں کیں جو ہم خبروں میں بتا چکے تھے۔
غرض یہ کہ ٕمارشل لا لگ چکا تھا اور قوم ایک بار پھر ایک نئےطویل نظامِ حکومت کے لئے تیار ہو چکی تھی۔
آج بھی تصور میں، جب پولیس کے گھیرے میں سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو، جنھیں سرکاری طور پر ’چیف اگزیکٹو‘ کہا جاتا تھا، دیکھتا ہوں تو مجھے 1999ء کی یاد آجاتی ہے جب دوسرے دن کی اخباری تصویروں میں، جہاں نئے فوجی سربراہ کی وردی میں ٹی وی پر خطاب کی تصویر تھی، وہیں نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے، آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دکھایا گیا تھا۔
کل ہی کی بات ہے کہ میں ’خبر نامہ‘ پڑھنے کے لئے ’پی ٹی وی‘ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔میرا معمول تھا کہ میں شام کا اردو اور انگریزی کا بلیٹن ضرور سنتا تھا، جو کہ میرے ہوم ورک کا حصہ تھا اور مجھے اندازہ ہو جاتا تھا کہ آج کے خبرنامے میں کیا خبریں شامل ہوں گی۔خاص طور پر شائستہ زید کی خبریں توجہ سے سنتا تھا،کیونکہ وہ لوگوں اور جگہوں کے تلفظ اور دوسرے واقعات کی ایسی صحیح ادائیگی کرتی تھیں کہ میری رہنمائی ہو جاتی تھی۔
شائستہ، معمول کے مطابق، زور و شور سےخبریں پڑھ رہی تھیں کہ اچانک وہ رکیں اور کسی نے اُن کے آگے ایک پرچہ رکھا۔ ایک نظر اُس پر ڈالنے کے بعد، اُنہوں نے اعلان کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ کو فوج کا نیا سربراہ مقرّر کیا ہے۔ بعد میں، معلوم ہوا کہ وہ چئیرمین پی ٹی وی پرویز رشید تھے جو سیدھے وزیراعظم ہاؤس سےاسٹوڈیو آئے اور ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پرچہ شائستہ زید کو پڑھنے کے لئے دیا۔پھر کچھ اور خبروں میں ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی کہ وزیراعظم صاحب ضیا الدین کو’جنرل‘ کےعہدے کی پٹیاں لگا رہے ہیں،جِن کے متعلق بعد میں مذاق بنتا رہا کہ وہ پنڈی صدر کی ایک فوجی وردیوں کی دوکان سے خرید کر لگائی گئی تھیں۔
خیر، ایک طرف یہ ڈرامہ چل رہا تھا کہ دوسری طرف فوج نے اپنی کاروائی کرتے ہوئے، ضیاالدین کو اپنا جنرل ماننے سے انکار کر دیا۔اور دوسرے ہی بلیٹن میں فوج کی طرف سے متضاد بیان آنے لگے۔ پھر پتہ چلا کہ فوج پی ٹی وی پہنچ چکی ہے اور خبروں کی نگرانی ہو رہی ہے۔یہ ساری صورتحال بڑی گھمبیر تھی۔میں نےصورتِ حال کی گھمبیرتا کا اندازہ لگاتے ہوئے ’پی ٹی وی‘ جانے کی تیاری شروع کردی،حالانکہ ابھی وقت نہیں ہوا تھا’خبرنامے‘ کا۔لیکن، مجھے معلوم تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس لئے، جلدی پہنچنا چاہئیے۔
میں ضیاالحق کا مارشل لا نہیں بھولا تھا ،جب ’ریڈیو پاکستان‘ پر صبح کی پہلی خبروں میں آدھا بلیٹن بھٹو صاحب کی گذشتہ رات کی سرگرمیوں پر مبنی تھا اورباقی آدھے میں اعلان تھا کہ مارشل لا لگا دیا گیا ہے اور بھٹو صاحب چند سیکنڈ میں سابق وزیرِاعظم ہو گئے۔ اور جب شام کوخبریں پڑھنے ٹی وی پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا اور فوجی ٹہل رہے تھے۔
اِسی طرح، معصوم وزیرِاعظم محمد خان جونیجوجاپان کے دورے پر گئے تو پوری شان کے ساتھ تھے،لیکن اُن کے آنے سے پہلے صدر ضیاالحق نے ایک پریس کانفرنس میں،جیب میں سے ایک چھوٹا سا پرچہ نکال کر انکی برطرفی کا اعلان کر چکے تھے۔اور بیچارے جونیجو صاحب کا ائرپورٹ پر خیر مقدم کرنے والا کوئی نہ تھا۔منظر بدل چکا تھا، سب اُن سے چُھپتے پھر رہے تھے۔
میری اِس تشویش اور جلدبازی سے والدہ کچھ پریشان ہوئیں اور بیوی نے بھی کہاکہ ، ’ایسا بھی کیا ہے۔ ذرا ٹہر جائیں۔دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے۔ایسا نہ ہو کے سڑک پر کسی ہنگامے میں پھنس جائیں‘۔
میں نے کہا، اِسی لئے تو جلدی جارہا ہوں ۔ہنگامے شروع ہو گئے تو پھرنہیں جا پاؤں گا۔خیر، میں جلدی جلدی تیار ہو کر نکلا۔والدہ نے پڑھتے پھوکتے رخصت کیا۔مونا بیگم بھی دوپٹہ سر پر لئےدبے لفظوں میں کچھ دعائیں کرتی دروازے تک آئیں۔یوں، لگا میں کسی
محاذ پر جا رہا ہوں۔
میں نے اُنہیں تسلّی دی کہ، ’ کچھ نہیں ہو رہا۔میں پہنچتے ہی فون کروں گا‘۔
سڑکیں خلافِ ٕمعمول سنسان تھیں۔شاید، لوگوں تک خبر پہنچی نہیں تھی یا پھر لوگ ابھی سکتے کے عالم میں تھے۔
گھر سے ٹیلی وژن کا راستہ پندرہ بیس منٹ کا تھا۔میں جلد ہی وہاں پہنچ گیا۔لیکن، ٹی وی سٹیشن کے دروازے پر کچھ دوسرا ہی منظر تھا۔میں جو سمجھ رہا تھا کہ لوگ بےخبر ہیں، وہ غلط تھا۔لوگ خبر سنتے ہی ٹی وی کی طرف بھاگے اور وہاں ایک ہجوم جمع تھا۔
گیٹ بند تھا اور اندر فوجی ہھتیار سنبھالے مستعد کھڑے تھے۔اندر جانے کی نہ کسی کو اجازت تھی اور نہ باہر آنے کی۔ بہت سے متوالے گیٹ پر چڑھ گئے ۔ کچھ دیواریں پھلانگنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیکن، سامنے بندوقیں سنبھالے فوجی انکے منتظر تھے۔لہٰذا، نہتّے شہری کیسے ہمت کرتے۔
نہ جانے یہ سب لوگ ٹی وی کیا دیکھنے آئے تھے۔شاید یہ پہلی جگہ تھی جہاں فوج پہنچی تھی اور اِس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
میں نے گاڑی دور کھڑی کرکے دروازے کے قریب جانے کی کوشش کی۔کچھ نوجوانوں نےپہچان کر زور زور سے فوجیوں کو پکارا کہ اِنہوں نے خبریں پڑھنی ہیں۔ اِنہیں جانے دو۔لیکن، فوجی بھائی صرف اپنے افسر کا حکم سنتا ہے اسلئے کوئی ٹس سے ٕمس نہ ہوا۔
میں نے باہر سڑک سے اندر نیوز روم میں دیکھا،جو پہلی منزل پر تھا ۔ اور باہر سے صاف نظر آرہا تھا ۔مجھے اپنے کچھ ساتھی دکھائی دئے۔ لیکن، وہ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ایک دو فوجی حضرات بھی ٹہلتے نظر آئے، جِس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔
میں پھر قریبی ہوٹل میریاٹ میں چلا آیا۔ چائے کا آرڈر دیا۔ جو گھر میں جلدی میں نہیں پی سکا تھا۔حالانکہ، تیار تھی۔ اِس دوران، ٹی وی پر بار بار خبریں آرہی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات سامنے آرہے تھے۔وہاں سے میں نے فون کرنے کی کوشش کی۔ لیکن، وہ فوجی اٹھاتے تھے اور کسی سے بات نہیں کراتے تھے۔بالآخر ایڈیٹر کا موبائیل فون ملا تو میں نے صورتحال بتائی۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ گیٹ پر آجائیں۔ میں کسی کو بھیجتا ہوں۔
خیر، ایک پروڈیوسر ایک فوجی کے ہمراہ وہاں آئے۔میری پوری تلاشی لی گئی اور مشکوک ثابت نہ ہونے پر اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
وہاں جو نیوزریڈر ساتھی تھے اُنہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ صبح سے پھنسے ہوئے تھے اور باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
نیوز روم کا منظر عجیب تھا۔میجر ،کپتان ٹہل رہے تھے۔سراسیمگی کا عالم تھا۔ لوگ سرگوشی میں بات کر رہے تھے۔کوئی ہنس نہیں رہاتھا۔ ہر خبر جیسے ہی تیار ہوتی،فوجی افسر اُس پر طائرانہ نظر ڈالتے، اور یوں، ظاہر کرتے کہ سب سمجھ رہے ہیں۔حکم یہ تھا کہ فوجی سربراہ کی تبدیلی کی خبر دوبارہ نہ جانے پائے۔اور حکومت کی سرگرمیوں کی خبریں بھی روک دی گئی تھیں۔پھر، اطلاعات آنی شروع ہوئیں کہ ایک فوجی دستہ وزیراعظم ہاؤس بھی پہنچا اور نواز شریف اور ساتھیوں کو نا معلوم مقام پر لیجایا گیا ہے۔
اب ہر خبر اور ہر بلیٹن کی اجازت فوج کے محکمہٴ تعلقاتِ عامہ سے لی جارہی تھی۔ بلکہ، محکمے کے کچھ لوگ آکر ڈائرکٹر نیوز ،شکور طاہر کے کمرے میں براجمان تھے۔ان میں سے کچھ شناسا چہرے بھی تھے۔لیکن، اُس وقت وہ پہچان بھی نہیں رہے تھے۔ اور بہت سنجیدگی کا اظہار کر رہے تھے۔
خیر، پہلا خصوصی بلیٹن تیار ہوا اور ہمارے حوالے ہوا۔ یہ ناخوشگوار فریضہ ہمیں انجام دینا پڑا ۔سٹوڈیو کی طرف چلے تو دیکھا کہ وردیوں والے ہر جگہ موجود ہیں۔
ماشل لا کی آمد آمد تھی اور ہم نے سوچ لیا کہ اب آئندہ فوجی سربراہ کی خبریں پڑھنا
ہونگی اور احتیاط کرنا ہوگی کہ کسی سویلین کا نام زبان سے نہ پھسل جائے۔
پھر وہ تمام خبریں جو آپ سنتے رہے ہیں آتی رہیں کہ جنرل مشرف ، جو سری لنکا کے دورے پر تھے ان کے طیارے کو زبردستی کسی اور مقام کی طرف موڑ دیا گیا۔ طیارے کو تباہ کرنے کی بھی کوشش کی گئ۔اُس کا ایندھن بھی ختم ہو رہا تھا اور وہ گرنے والا تھا،وغیرہ، وغیرہ۔
لیکن، یہ واضح ہو چکا تھا کہ تختہ الٹ دیا گیا ہے۔فوج اہم مقامات پر پہنچ چکی ہے۔اور، اب انتظار تھا کہ مشرف صاحب کب قوم سے خطاب کرتے ہیں۔
کافی انتظار کے بعد کوئی رات بارہ بجے فوج کی طرف سے بیان آنا شروع ہوا،جس میں حسبِ روایت ،سول حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ تھی اور اپنے اس اقدام کی صفائی پیش کی گئی تھی۔
ڈائرکٹر نیوز، شکور طاہر سمیت سب احباب نے انگریزی میں آنے والے متن کا ترجمہ شروع کیا اور مجھے دیا گیا کہ ایک نظر ڈال لو۔کافی دیر بعد بلیٹن تیار ہوا۔میں سٹوڈیو پہنچااور قوم کو یہ پیغام سنانا شروع کیا جو بڑی دیر سے اِس خبر کی منتظر تھی۔
کوئی ایک ڈیڑھ بجے کے قریب،جنرل صاحب کمانڈو کی وردی میں ٹی وی پر نمودار ہوئے اور تقریر میں تقریباًٍ وہی باتیں کیں جو ہم خبروں میں بتا چکے تھے۔
غرض یہ کہ ٕمارشل لا لگ چکا تھا اور قوم ایک بار پھر ایک نئےطویل نظامِ حکومت کے لئے تیار ہو چکی تھی۔
آج بھی تصور میں، جب پولیس کے گھیرے میں سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو، جنھیں سرکاری طور پر ’چیف اگزیکٹو‘ کہا جاتا تھا، دیکھتا ہوں تو مجھے 1999ء کی یاد آجاتی ہے جب دوسرے دن کی اخباری تصویروں میں، جہاں نئے فوجی سربراہ کی وردی میں ٹی وی پر خطاب کی تصویر تھی، وہیں نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے، آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دکھایا گیا تھا۔