’ابراہیمی مذاہب میں خاصی مماثلت ہے، جسے اجاگر کیا جائے‘

  • ندیم یعقوب
’یہ مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آمر اور جابر حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ بھی مذہبی رہنماؤں کی ذمہ دری ہے کہ وہ ڈائلاگ جاری رکھیں اور دنیا بھر میں اچھائی کے لیے کام کریں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو لوگ مذہبی رہنماؤں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے‘

شکاگو۔۔۔ امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم، اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اسنا) کا چار روزہ سالانہ کنوینشن شکاگو میں اختتام پذیر ہوا۔

تنظیم کے عہدے داروں اور کنوینشن کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے تقریباً 10000مسلمانوں نے باونویں سالانہ اجلاس میں شرکت کی، جس میں مختلف مکاتبِ فکر اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ مگر اِن کے علاوہ، دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد بھی اس کنوینشن میں شریک ہوئے جو ناصرف مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں تجسس رکھتے تھے، بلکہ اس کے بارے مین زیادہ آگہی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔

اس کی ایک وجہ اسنا کا بین الامذاہب مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اِن چار روز کے دوران مختلف موضوعات پر روزانہ درجنوں سمینار اور مذاکرے ہوئے جن میں کچھ بین الامذاہب ڈائلاگ کے بارے میں تھے۔

اتوار کی شام بین المذاہب اتحاد کے لیے ایک پُر وقار عشائیے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔

امن کے لیے نوبیل انعام یافتہ، یمنی صحافی، توکل کرمان نے اس موقع پر کہا کہ بین الامذاہب مکالمے کا مقصد ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرنا اور دوسروں کی اقدار کو تسلیم کرنا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں زیادہ تر انتشار مذہبی لوگوں کی وجہ سے ہے، کیونکہ مذہبی لوگ اپنے معاشروں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔

بقول اُن کے، ’یہ مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آمر اور جابر حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ بھی مذہبی رہنماؤں کی ذمہ دری ہے کہ وہ ڈائلاگ جاری رکھیں اور دنیا بھر میں اچھائی کے لیے کام کریں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو لوگ مذہبی رہنماؤں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’تمام مذاہب امن، انصاف، مساوات اور بہتر عمل داری جیسے اقدار کا درس دیتے ہین‘۔

اسنا کے صدر، اظہر عزیز نے اپنے خطاب میں تینوں ابراہیمی مذاہب میں مماثلتوں کا ذکر کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’ڈائلاگ کا مقصد باہمی طور پر مختلف مذاہب کو سمجھنا اور اچھائی قائم کرنا ہے‘۔

اس موقع پر ایک مذاکرے کے دوران شامی تارکینِ وطن کے مسئلے پر بھی تبادلہٴ خیال ہوا۔

Shoulder to Shoulderتنظیم کی ڈائریکٹر، کیتھرین آسبرن نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے مزید اقدام اٹھائے۔

امریکی وزارت خارجہ کے مذہبی آزادی کے لیے گشتی سفیر اور یہودی کمیونٹی کے رہنما، ڈیوڈ سیپرسیٹن نے اِس موقع پر شرکا کو یقین دلایا کہ وہ شام کے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی امداد میں اضافے اور اقدامات کے لیے امریکی حکومت سے گزارش کریں گے۔

کنوینشن کے دوران، شام کے مسئلے کے علاوہ برما کے روہنگیا مسلمانوں اور کشمیر کے مسئلے پر بھی خصوصی نشستیں ہوئیں، جن میں برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد نے بھی شرکت کی۔

اس سال کنوینشن کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ مختلف موضوعات پر بات کرنے کے لیے جن ماہرین کو مدعو کیا گیا تھا اُن میں، بقول اسنا سکریٹری جنرل، ’تقریباً 80 فی صد خواتین تھیں‘۔

صرف یہی نہیں، بلکہ ’اسنا بازار‘ اور ’ٹریڈ شو‘ میں لگائے جانے والے 525 اسٹالوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی، جن میں زیادہ تر اسٹال لباس، زیورات اور کتابوں سے متعلق تھے۔

اسنا کنوینشن کی ایک منتظم، انجم خان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اِن اسٹالوں میں چند ایسے کاروبار بھی ہیں جو خصوصی طور پر شرکت کے لیے پاکستان، بھارت اور اردن سے امریکہ آئے ہیں۔

نوجوانوں اور خواتین کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جن میں نوجوانوں کے لیے ازدواجی ضیافت کافی مقبول رہی۔ عالمی شہرت یافتہ مسلمان فنکار، سمیع یوسف کے علاوہ پاکستان سے نجم شیراز نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

اس سال کے کنوینش میں بھارتی اسکالر، مولانا وحیدالدین خان، امریکی بیپٹسٹ چرچز کے سکریٹری جنرل، ڈاکٹر روئے میڈل اور ڈاکٹر یعقوب مرزا کو اُن کی خدمات کے صلے میں اعزازات سے نواز گیا۔