ایران: غیر دستاویزی افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری

روزانہ ہزاروں لوگ ایران سے بے دخل ہوتے ہیں۔ ایران کی پالیسی ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان سے 600000 مہاجرین کو واپس روانہ کر دیا جائے گا

اس سال حکومتِ ایران نے تقریباً 130000 دستاویزی ثبوت کے بغیر ملک میں موجود افغان مہاجرین کو مجبوراً اپنے وطن واپس بھیج دیا ہے، ایسے میں جب پھر سے سر اٹھانے والے طالبان کا افغانستان کے 40 فی صد سے زائد دیہی علاقوں پر قبضہ ہے۔


روزانہ ہزاروں لوگ ایران سے بے دخل ہوتے ہیں۔ ایران کی پالیسی ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان سے 600000 مہاجرین کو واپس روانہ کر دیا جائے گا۔


افغان وزارت برائے مہاجرین اور واپس آنے والے افراد کےترجمان، حافظ محمد میاں خیل نے کہا ہے کہ ''گذشتہ ہفتے، 7695 افغان مہاجرین ایران سے واپس آئے، جن میں سے 60 سے 65 فی صد کو زبردستی ملک بدر کیا گیا''۔


بقول اُن کے، ''اِن میں سے اکثریت نوجوانوں کی ہے، لیکن کچھ خاندان ہیں، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں''۔


کابل نے کہا ہے کہ واپس آنے کی بڑی تعداد کے باعث حکومت اور مہاجرین کے اداروں پر بوجھ پڑا ہے، ایسے میں جب کہ خصوصی طور پر پاکستان سے بھی مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔


ایران سے واپس آنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور افغانستان کے نتیجے میں تشویش نے جنم لیا ہے کہ واپس آنے والے چند نوجوان طالبان یا دیگر شدت پسند گروہوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوٹنے والوں کی بڑی شرح ملک کے جرائم کی شرح میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جسے پہلے ہی دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے، اور سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی شرح میں اضافہ جاری ہے۔


افغان حکومت کے اندازے کے مطابق، ایران میں 20 لاکھ سے زائد افغان موجود ہیں۔

اُن میں سے زیادہ تر لڑائی اور تنازعے کے نتیجے میں ملک سے بھاگ چکے ہیں۔ تقریباً 950000مہاجرین کے زمرے میں آتے ہیں۔