سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاست کی راہ داریوں میں تین خواتین ایسی بھی ہیں جو کسی کو بھی ’کنگ‘ بنا سکتی ہیں۔۔۔خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر سنگھ مودی کو۔۔۔ کیسے؟ ذیل میں ملاخطہ کیجئے
کراچی —
اب سے کچھ ہفتوں بعد بننے والی نئی بھارتی حکومت سے متعلق سیاسی پنڈتوں نے فال نکالنا شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل تین خواتین’ کنگ میکرز‘ کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے۔ یہ ایسی ’بادشاہ گر‘ خواتین ہیں جو علاقائی سطح پر عوام کے دلوں میں بستی ہیں۔ ان میں سے ایک تو اپنے دور کی مشہور فلم اسٹار بھی رہی ہیں۔ آج بھی عوام انہیں بہت عزت و احترام سے ’اماں‘ کہہ کر پکارتی ہے۔
یہ کنگ میکرز ہیں۔۔۔ جے للیتا، ممتا بینرجی اور مایا وتی۔۔ان کا کرشمہ سیاست کی آمیزیش کے ساتھ ڈنکے پیٹ رہا ہے۔ مضبوط سیاسی نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں یہ تینوں خواتین نئی سرکار بنانے میں اہم ترین رول ادا کریں گی۔
نریندر مودی انتخابی دوڑ میں ابھی تک سب سے آگے ہیں۔ لیکن یہ امید کسی کو بھی نہیں کہ ان کی پارٹی، علاقائی جماعتوں کی حمایت کے بغیر مطلوبہ اکثریت حاصل کرسکے گی۔ پچھلے 30سالوں سے کوئی بھی ایک جماعت 50فیصد پارلیمانی نشستیں نہیں جیت سکی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک مخصوص سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے ’نئی دہلی میں تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ریاست تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا اپنے حماتیوں کو ایک اشارہ کردیں تو اقتدار کی چڑیا مودی کے سر پر بیٹھ جائے۔‘
جے للیتا: جنوبی ہند کی ملکہ۔۔؟
جے للیتا آنجہانی فلمی ہیرو ایم ڈی راماچندرن کے ساتھ بہت سی فلموں کا حصہ رہی ہیں اور اسکرین پر ان دونوں کی کیمسٹری نے آج تک لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ چندرن نے 1972ء میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی تھی اور جے للیتا یہاں بھی ان سے قدم سے قدم ملا کر چلا کرتی تھیں مگر درمیان میں چندرن کو بے رحم موت کا فرشتہ اپنے ساتھ لے اڑا۔
چندرن کی موت پر ہمددری کا عوامی جذبہ اور جے للیتا کی فلمی شہرت، ان کے سیاسی کیرئیر کی مضبوطی کا زینہ بن گئی۔ مضبوطی بھی اس قدر کہ 1991ء سے مسلسل تین مرتبہ ۔۔یعنی 15سالوں تک وہ ریاست کی وزیراعلیٰ منتخب ہوتی رہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں ان کی شخصیت کاجادو ابھی تک چھایاہوا ہے حالانکہ ان پر بدعنوانی کے زبردست الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔
اپنی شہرت کو مزید دوام بخشنے کے لئے انہوں نے ’اماں کینٹین‘ کے نام سے ایک عوامی خدمت کی مہم شروع کی ہوئی ہے جس کے تحت ہر ضرورت مند آدمی کو صرف تین روپے میں دوپہر کا کھانا ملتا ہے۔وہ مختلف عوامی ریلیوں میں لوگوں کو لیپ ٹاپ اور سائیکلیں بھی مفت بانٹتی رہی ہیں، جبکہ انہوں نے عوام کو ایسی اور بہت سی اسکیمیں شروع کرنے کا یقین دلایا ہے ۔۔اس شرط پر کہ عوام انہیں ووٹ دے اور ان کی جماعت کم از کم 30نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوجائے۔
سنہ 1997ء میں پولیس نے غیر قانونی طور رپر دولت جمع کرنے کے الزام میں ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا جس میں پولیس کو نہایت قیمتی 10ہزار ساڑھیاں اور 750جوڑی مہنگے ترین جوتے ملے تھے۔ لیکن، پھر بھی بھارت کی خوش حال ترین اور صنعتی مرکز کا درجہ رکھنے والی ریاست، تامل ناڈو کے بڑے بڑے وزیر ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ پچھلے 30سالوں سے جے للیتا ریاست کی بے تاج بادشاہ ۔۔۔نہیں۔۔۔بادشاہ گر بنی ہوئی ہیں۔
ممتا بینرجی
اگر جے للیتا جنوبی ہند کی ملکہ ہیں تو ممتا بینر جی اور ان کی جماعت’ تری نومل کانگریس‘ مغربی بنگال اور اس کے دارالحکومت کولکتہ پر حکمرانی کرتی ہے۔ سنہ 2012ء میں اختلاف کے باعث اپنے 18ارکان کو حکومت سے علیحدہ کرنے کے فیصلے نے کانگریس کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کو ’پارہ پارہ‘ کردیا تھا۔ اس وقت بھی تری نومل کانگریس مغربی بنگال کی 42نشستوں میں سے تقریباً 30 نشستیں کی توقع کررہی ہے۔
ممتابینر جی کو لوگ ’دی دی‘ یعنی بہن کہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں 16مئی کو آنے والے انتخابی نتائج سنیں کے بعد وہ کدھر کا رخ کریں گی اس کا ابھی سے اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
کولکتہ سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار سبیا ساچی باسو رے چوہدری کا کہنا ہے ’ممتا بینرجی، جے للیتا کے مقابلے میں اپنے سادہ لائف اسٹائل اور عام آدمی تک باآسانی رسائی کی صلاحیت کے عوض خوب شہرت رکھتی ہیں۔‘
مایاوتی: دلتوں کی رانی
بھارت میں اچھوتوں کو’دلت‘ کہاجاتا ہے اور مایا وتی کو’دلتوں کی رانی‘۔ اس کے علاوہ انہیں عام لوگ ’بہن جی‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ انہوں نے شیڈولڈ یا پسماندہ دلتوں کو ان کا حق دلانے میں بہت اہم کردار اداکیا ہے۔ اس کے عوض آج بھی لاکھوں لوگ ان پر جان چھڑکتے ہیں۔
مایا وتی کی جماعت کا نام ’بہوجن سماج پارٹی‘ ہے جو موجودہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں 21نشستیں رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے اگلے وزیراعظم کے طور پر نریندر مودی کو منتخب کیا تو یہ بھارت کی تباہی کے مترادف ہوگا۔ ماضی میں انہوں نے بی جے پی کے ساتھ تعاون ختم کرکے اسے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ سے محروم کردیا تھا۔
چنائی اور دہلی جیسے کاسموپولیٹن شہروں سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین اور اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تینوں خواتین کی جڑیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ان کی امیج، ان کا جذبہ، ان کا شخصی کرشمہ اور انتظامی مہارت ۔۔سب کچھ لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ایسے میں جب وہ ووٹ کی غرض سے کہیں جائیں تو عوام کیلئے ان کا کہا ماننا تو ’بنتا‘ ہی ہے۔
یہ کنگ میکرز ہیں۔۔۔ جے للیتا، ممتا بینرجی اور مایا وتی۔۔ان کا کرشمہ سیاست کی آمیزیش کے ساتھ ڈنکے پیٹ رہا ہے۔ مضبوط سیاسی نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں یہ تینوں خواتین نئی سرکار بنانے میں اہم ترین رول ادا کریں گی۔
نریندر مودی انتخابی دوڑ میں ابھی تک سب سے آگے ہیں۔ لیکن یہ امید کسی کو بھی نہیں کہ ان کی پارٹی، علاقائی جماعتوں کی حمایت کے بغیر مطلوبہ اکثریت حاصل کرسکے گی۔ پچھلے 30سالوں سے کوئی بھی ایک جماعت 50فیصد پارلیمانی نشستیں نہیں جیت سکی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک مخصوص سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے ’نئی دہلی میں تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ریاست تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا اپنے حماتیوں کو ایک اشارہ کردیں تو اقتدار کی چڑیا مودی کے سر پر بیٹھ جائے۔‘
جے للیتا: جنوبی ہند کی ملکہ۔۔؟
جے للیتا آنجہانی فلمی ہیرو ایم ڈی راماچندرن کے ساتھ بہت سی فلموں کا حصہ رہی ہیں اور اسکرین پر ان دونوں کی کیمسٹری نے آج تک لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ چندرن نے 1972ء میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی تھی اور جے للیتا یہاں بھی ان سے قدم سے قدم ملا کر چلا کرتی تھیں مگر درمیان میں چندرن کو بے رحم موت کا فرشتہ اپنے ساتھ لے اڑا۔
چندرن کی موت پر ہمددری کا عوامی جذبہ اور جے للیتا کی فلمی شہرت، ان کے سیاسی کیرئیر کی مضبوطی کا زینہ بن گئی۔ مضبوطی بھی اس قدر کہ 1991ء سے مسلسل تین مرتبہ ۔۔یعنی 15سالوں تک وہ ریاست کی وزیراعلیٰ منتخب ہوتی رہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں ان کی شخصیت کاجادو ابھی تک چھایاہوا ہے حالانکہ ان پر بدعنوانی کے زبردست الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔
اپنی شہرت کو مزید دوام بخشنے کے لئے انہوں نے ’اماں کینٹین‘ کے نام سے ایک عوامی خدمت کی مہم شروع کی ہوئی ہے جس کے تحت ہر ضرورت مند آدمی کو صرف تین روپے میں دوپہر کا کھانا ملتا ہے۔وہ مختلف عوامی ریلیوں میں لوگوں کو لیپ ٹاپ اور سائیکلیں بھی مفت بانٹتی رہی ہیں، جبکہ انہوں نے عوام کو ایسی اور بہت سی اسکیمیں شروع کرنے کا یقین دلایا ہے ۔۔اس شرط پر کہ عوام انہیں ووٹ دے اور ان کی جماعت کم از کم 30نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوجائے۔
سنہ 1997ء میں پولیس نے غیر قانونی طور رپر دولت جمع کرنے کے الزام میں ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا جس میں پولیس کو نہایت قیمتی 10ہزار ساڑھیاں اور 750جوڑی مہنگے ترین جوتے ملے تھے۔ لیکن، پھر بھی بھارت کی خوش حال ترین اور صنعتی مرکز کا درجہ رکھنے والی ریاست، تامل ناڈو کے بڑے بڑے وزیر ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ پچھلے 30سالوں سے جے للیتا ریاست کی بے تاج بادشاہ ۔۔۔نہیں۔۔۔بادشاہ گر بنی ہوئی ہیں۔
ممتا بینرجی
اگر جے للیتا جنوبی ہند کی ملکہ ہیں تو ممتا بینر جی اور ان کی جماعت’ تری نومل کانگریس‘ مغربی بنگال اور اس کے دارالحکومت کولکتہ پر حکمرانی کرتی ہے۔ سنہ 2012ء میں اختلاف کے باعث اپنے 18ارکان کو حکومت سے علیحدہ کرنے کے فیصلے نے کانگریس کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کو ’پارہ پارہ‘ کردیا تھا۔ اس وقت بھی تری نومل کانگریس مغربی بنگال کی 42نشستوں میں سے تقریباً 30 نشستیں کی توقع کررہی ہے۔
ممتابینر جی کو لوگ ’دی دی‘ یعنی بہن کہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں 16مئی کو آنے والے انتخابی نتائج سنیں کے بعد وہ کدھر کا رخ کریں گی اس کا ابھی سے اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
کولکتہ سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار سبیا ساچی باسو رے چوہدری کا کہنا ہے ’ممتا بینرجی، جے للیتا کے مقابلے میں اپنے سادہ لائف اسٹائل اور عام آدمی تک باآسانی رسائی کی صلاحیت کے عوض خوب شہرت رکھتی ہیں۔‘
مایاوتی: دلتوں کی رانی
بھارت میں اچھوتوں کو’دلت‘ کہاجاتا ہے اور مایا وتی کو’دلتوں کی رانی‘۔ اس کے علاوہ انہیں عام لوگ ’بہن جی‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ انہوں نے شیڈولڈ یا پسماندہ دلتوں کو ان کا حق دلانے میں بہت اہم کردار اداکیا ہے۔ اس کے عوض آج بھی لاکھوں لوگ ان پر جان چھڑکتے ہیں۔
مایا وتی کی جماعت کا نام ’بہوجن سماج پارٹی‘ ہے جو موجودہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں 21نشستیں رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے اگلے وزیراعظم کے طور پر نریندر مودی کو منتخب کیا تو یہ بھارت کی تباہی کے مترادف ہوگا۔ ماضی میں انہوں نے بی جے پی کے ساتھ تعاون ختم کرکے اسے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ سے محروم کردیا تھا۔
چنائی اور دہلی جیسے کاسموپولیٹن شہروں سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین اور اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تینوں خواتین کی جڑیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ان کی امیج، ان کا جذبہ، ان کا شخصی کرشمہ اور انتظامی مہارت ۔۔سب کچھ لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ایسے میں جب وہ ووٹ کی غرض سے کہیں جائیں تو عوام کیلئے ان کا کہا ماننا تو ’بنتا‘ ہی ہے۔