بھارت کی 10 بڑی تجارتی تنظیموں سے منسلک ملازم پیشہ افراد اور مزدورں نے بدھ کو بڑھتی ہوئی بے روزگاری، معاشی سست روی اور حکومت کی نج کاری پالیسی کے خلاف ہڑتال کی۔
ہڑتال کے باعث بھارت کے مختلف شہروں میں ٹرانسپورٹ کا نظام اور کاروبار مکمل طور پر بند رہا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بھارت میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت سے ملک کی 10 بڑی تجارتی تنظیموں نے ہڑتال میں حصہ لیا۔
اپوزیشن اور ان تاجر تنظیموں کا گلہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اہم قومی اداروں کی نج کاری کرنا چاہتی ہے۔ جس سے لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
ان اداروں میں بھارت کی قومی ایئر لائن 'ایئر انڈیا' ،تیل کمپنیاں اور سرکاری بینک بھی شامل ہیں۔ مغربی بنگال میں ہڑتالیوں نے دوران احتجاج کولکتہ اور دیگر علاقوں میں ٹرین سروس زبردستی معطل کرا دی۔ ان علاقوں میں دکانیں اور بینک بھی بند رہے۔
مغربی بنگال اور کیرالہ میں پہیہ جام ہڑتال رہی۔ رکشے اور دیگر ٹرانسپورٹ بھی بند رہی۔ البتہ دارالحکومت نئی دہلی اور تجارتی مرکز ممبئی میں حالات معمول کے مطابق رہے۔
آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری وینکٹ چلام نے بتایا کہ 10 سرکاری بینکوں کے چار بینکوں میں انضمام سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ اور اس سے 140 ارب ڈالر کے قرضوں کی وصولی کا عمل بھی التوا میں پڑ جائے گا۔
بھارت کی حکومت نے ہڑتال میں شریک ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی اور تادیبی کارروائی کی بھی تنبیہ کر رکھی ہے۔
بھارتی معیشت کی زبوں حالی
بھارتی معیشت کی شرح نمو گزشتہ 11 سال کے دوران سب سے کم ریکارڈ کیے جانے کا امکان ہے۔ ماہرین کے مطابق رواں مالی سال کے دوران یہ شرح پانچ فی صد تک رہے گی۔
بھارتی حکومت اس معاشی سست روی کا ذمہ دار نجی سرمایہ کاری میں کمی کو قرار دیتی رہی ہے۔ بھارت میں بے روزگاری کی شرح بھی رواں سال بڑھ کر 7.7 فی صد ہو گئی ہے۔
ایک ٹوئٹ میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث بھارت کو 'تباہ کن' نقصان پہنچ رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق معاشی بدحالی کے باعث پیداواری شعبے سے منسلک ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبی کمپنیاں بھی نئی سرمایہ کاری سے گریز کر رہی ہیں۔
بھارت کی حکومت نے رواں سال اپنے اخراجات میں بھی دو کھرب روپے کی کٹوتی کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی سست روی کے باعث ٹیکس وصولی کی شرح میں کمی بتائی جا رہی ہے۔
بھارت میں گزشتہ سال کئی اہم واقعات کے باعث سیاسی منظر نامے پر ہلچل رہی۔ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے سے لے کر متنازع شہریت بل اور بابری مسجد کیس کا فیصلہ، ان معاملات پر بھارت میں اختلاف رائے سامنے آتا رہا ہے۔
بھارت میں ان معاملات پر احتجاج کا سلسلہ بھی گزشتہ سال سے وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ البتہ معاشی صورتِ حال پر ہڑتال اور اپوزیشن کی حمایت سے ماہرین کے مطابق بھارت کے سیاسی منظر نامے میں اس سال بھی ہلچل رہے گی۔