اسلامی نظریاتی کونسل کا مؤقف بیان کرتے ہوئے، ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسلام تحقیق کے حق میں ہے۔ لیکن، ہر ایجاد کے لیے اس کی ضرورت، افادیت اور سہولیت کا موجود ہونا ضروری ہے
واشنگٹن —
پاکستان کے دارالحکومت، اسلام آباد میں دو دِنوں سے جاری اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے اختتام پر، کونسل کے سربراہ، مولانا محمد خان شیرانی نے ایک اخباری کانفرنس میں سات اہم مسائل پر کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں اعلان کیا۔
اِن سات نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا شیرانے نے’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ کونسل نے اپنی گذشتہ سفارشات کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی کلوننگ کو حرام قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اسلام تحقیق کے حق میں ہے۔ لیکن، ہر ایجاد کے لیے اس کی ضرورت، افادیت اور سہولیت کا موجود ہونا ضروری ہے۔
ایک اور مسئلے، ’ٹیسٹ ٹیوب بیبی‘ یعنی مصنوعی طریقہٴتولید پر گفتگو کرتے ہوئے، مولانا شیرانی نے کہا کہ بحالتِ مجبوری، اسلام کے اندر یہ جائز ہے۔
تیسرا مسئلہ تبدیلی جنس کے حوالے سے تھا۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی کامل مرد یا کامل عورت کو اسلام کے اندر اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، اُن کے الفاظ میں، ایسا فرد جسمیں پیدائشی طور پر مرد اور عورت دونوں کے اعضاٴموجود ہوں، تو اسلام کے اندر اس کا آپریشن کروانا جائز ہے۔
بچے کی جنس کے انتخاب کے بارے میں مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ لڑکے یا لڑکی کی خواہش ناجائز نہیں ہے۔ اس لیے، ضرورت کے تحت، آپریشن یا سرجری کے ذریعے، لڑکے یا لڑکی کا تولیدی جوثومہ جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے۔
اِس کے علاوہ، ضرورت کی بنیاد پر اور میاں بیوی کی رضامندی سے، تولید میں وقفہ بھی اسلام میں جائز ہے۔
جنسی زیادتی کے مقدمات میں ’ڈی این اے‘ کو بنیادی شہادت کے طور پر نہ ماننے اور توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام میں سزائے موت کی سزا نہ دینے کے فصلے کا دفاع کرتے ہوئے، مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ الزام جھوٹا ثابت ہونے کی صورت میں جو سزا قانون میں موجود ہے، وہ کافی ہے۔
’ڈی این اے ‘کے بارے میں، مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ جنسی زیادتی میں اس کو واحد اور بنیادی شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جرم ثابت کرنے کے لیے، اُن کے الفاظ میں، اور بھی طریقے ہیں۔
طبی ماہرین نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے مختلف مسائل پر فیصلے سنانے کے عمل کو سراہتے ہوئے کہا کہ، بقول اُن کے، اِن فیصلوں کے پاکستان کے معاشرے پر مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
تفصیلات کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے:
اِن سات نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا شیرانے نے’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ کونسل نے اپنی گذشتہ سفارشات کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی کلوننگ کو حرام قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اسلام تحقیق کے حق میں ہے۔ لیکن، ہر ایجاد کے لیے اس کی ضرورت، افادیت اور سہولیت کا موجود ہونا ضروری ہے۔
ایک اور مسئلے، ’ٹیسٹ ٹیوب بیبی‘ یعنی مصنوعی طریقہٴتولید پر گفتگو کرتے ہوئے، مولانا شیرانی نے کہا کہ بحالتِ مجبوری، اسلام کے اندر یہ جائز ہے۔
تیسرا مسئلہ تبدیلی جنس کے حوالے سے تھا۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی کامل مرد یا کامل عورت کو اسلام کے اندر اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، اُن کے الفاظ میں، ایسا فرد جسمیں پیدائشی طور پر مرد اور عورت دونوں کے اعضاٴموجود ہوں، تو اسلام کے اندر اس کا آپریشن کروانا جائز ہے۔
بچے کی جنس کے انتخاب کے بارے میں مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ لڑکے یا لڑکی کی خواہش ناجائز نہیں ہے۔ اس لیے، ضرورت کے تحت، آپریشن یا سرجری کے ذریعے، لڑکے یا لڑکی کا تولیدی جوثومہ جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے۔
اِس کے علاوہ، ضرورت کی بنیاد پر اور میاں بیوی کی رضامندی سے، تولید میں وقفہ بھی اسلام میں جائز ہے۔
جنسی زیادتی کے مقدمات میں ’ڈی این اے‘ کو بنیادی شہادت کے طور پر نہ ماننے اور توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام میں سزائے موت کی سزا نہ دینے کے فصلے کا دفاع کرتے ہوئے، مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ الزام جھوٹا ثابت ہونے کی صورت میں جو سزا قانون میں موجود ہے، وہ کافی ہے۔
’ڈی این اے ‘کے بارے میں، مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ جنسی زیادتی میں اس کو واحد اور بنیادی شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جرم ثابت کرنے کے لیے، اُن کے الفاظ میں، اور بھی طریقے ہیں۔
طبی ماہرین نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے مختلف مسائل پر فیصلے سنانے کے عمل کو سراہتے ہوئے کہا کہ، بقول اُن کے، اِن فیصلوں کے پاکستان کے معاشرے پر مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
تفصیلات کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے:
Your browser doesn’t support HTML5