پشتون احتجاجی تحریک کی علامت، ’پشتین ٹوپی‘

حسیب دانش علی کوزئی

جب سے منظور پشتین کی تحریک کا آغاز ہوا ہے، افغانستان میں بننے والی ٹوپی جسے ’مزاری ہیٹ‘ کہا جاتا ہے، اُس کی مانگ افغانستان بھر کی مارکیٹوں اور پاکستان کے کئی علاقوں میں بڑھ گئی ہے۔ منظور پشتین ’پشتون تحریک‘ کے راہنما ہیں، جنھوں نے عوامی ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں میں یہ ٹوپی پہننا شروع کی۔

سرخ اور سیاہ رنگ کی ’مزاری ہیٹ‘ روایتی ٹوپی ہے، جو زیادہ تر افغانستان کے شمالی صوبہٴ بلخ میں پہنی جاتی ہے۔ حالیہ دِنوں کے دوران یہ پُرامن احتجاج کی علامت بن کر مقبول ہوئی ہے، جسے اب ’پشتین ٹوپی‘ کہا جانے لگا ہے۔

یاما کابل میں ٹوپیاں بیچتے ہیں، جنھیں زیادہ تر افغانوں کی طرح ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حالیہ مہینوں کے دوران، ٹوپی کی مانگ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

یاما نے بتایا کہ ’’اِسے ’مزاری ہیٹ‘ کہا جاتا تھا، جسے اب ’پشتین ٹوپی‘ کہا جانے لگا ہے۔ ماضی میں یہ ٹوپی ایک ہی ڈیزائن کی ہوا کرتی تھی۔ اب یہ کئی ڈیزائنوں میں آتی ہے، اور خریدار اپنی مرضی کی ٹوپی کا انتخاب کر سکتا ہے۔ لوگ اس ٹوپی کو پسند کرتے ہیں، اور وہ بہت ساری ٹوپیاں خریدتے ہیں‘‘۔


یک جہتی کی علامت

پشتین، جِن کی تحریک کا مقصد پاکستان کی پشتون نسل کی برادری کے لیے انسانی حقوق حاصل کرنا ہے، حالیہ دِنوں اِس بات کی وضاحت کی کہ اُنھوں نے یہ ٹوپی پہننا کیوں شروع کی۔

پاکستان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، پشتین نے کہا کہ ’’ہمارے لوگ غریب ہیں۔ ایک گاؤں میں ایک نوجوان شخص جو کلینر تھا، اپنی ٹوپی اتارتے ہوئے اُنھیں بتایا کہ وہ بہتر ٹوپی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میں نے اُن سے کہا۔ یہ مجھے دے دو۔ میں تمہیں اپنی ٹوپی دیتا ہوں۔ پیسے کے لحاظ سے اُس ٹوپی کی کوئی خاص قیمت نہیں ہوگی۔ لیکن، اِس کی اخلاقی قدر انمول ہے‘‘۔

پشتون شکایات

افغانستان میں پشتون سب سے بڑا نسلی گروپ ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ ایک اقلیت ہے۔ جو لوگ کچھ عرصے سے محسوس کرتے ہیں کہ اُنھیں پاکستان میں نظرانداز کیا جا رہا ہے اور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جنوری میں ماضی کی تلخیاں اُس وقت عروج پر پہنچیں جب کراچی میں 27 برس کا ایک دوکاندار، نقیب اللہ، جو بعد میں ایک ماڈل بنا، پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔

اُس وقت پولیس نے بتایا کہ پاکستانی طالبان کے ایک گروہ کے ارکان کو گولیاں ماری گئیں، جن میں محسود بھی شامل تھا۔ تاہم، داخلی چھان بین کے دوران، اس دعوے پر شہبات پیدا ہوئے، جن میں بتایا گیا کہ محسود کا کسی شدت پسند گروپ سے بظاہر کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اُن کی ہلاکت پر کئی دِنوں تک احتجاج کیا جاتا رہا، جب کہ پاکستان کے شمال مغربی اکثریتی پشتون علاقے میں ہفتے بھر تک ریلیاں نکالی گئیں۔ اس کے نتیجے میں ’پشتین گروپ‘ قائم ہوا، جسے ’پشتون تحفظ تحریک‘ یا ’پشتون تحفظ تحریک‘ کا نام دیا گیا۔

ایک حالیہ فیس بک وڈیو میں، پشتین نے اپنی تحریک کے مطالبات کا اعادہ کیا اور پشتون نسل کی آبادی کے ساتھ مظالم بند کرنے پر زور دیا۔

پشتین نے کہا کہ ’’ہمارے دیس میں لڑائی چل رہی ہے جسے بند ہونا چاہیئے۔ آپ (فوج) نے فوجی کارروائیاں کی ہیں۔ ہم نے کبھی بھی اِن کی مخالفت نہیں کی۔ اگر آپ طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں، آپ جس طرح چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن، ہم ماورائے قانون ہلاکتوں، گم شدگیوں اور طالبان کے خلاف لڑائی کے بہانے لوگوں پر ظلم و ستم کے مخالف ہیں‘‘۔

اس احتجاجی تحریک کی ملالہ یوسف زئی نے بھی حمایت کی ہے، جس نوجوان بچی کو ’نابیل پیس پرائز‘ عطا کیا گیا، جنھیں پاکستان مین لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی بات کرنے کی پاداش میں سر میں گولی ماری گئی تھی۔

حکومت کا مؤقف

پاکستان کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پشتین کی تحریک کو بیرون ملک سے شہ ملی ہے، خاص طور پرحکومتِ افغانستان کی جانب سے، جس الزام کو افغان حکام مسترد کتتے ہیں۔

’انٹر سروسز پبلک رلیشنز‘ کے ڈائرکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور نے حالیہ دِنوں پاکستان میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ حکومت نے تحریک کے جائز مطالبات تسلیم کیے ہیں۔

غفور نے اخباری نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’آپ نے دیکھا کہ (تحریک) کو نئی حمایت مسیر آئی ہے۔ تحریک کو افغانستان سے بہت زیادہ حمایت ملنا شروع ہوئی ہے۔ مختلف قسم کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں۔ میں ذاتی طور پر منظور پشتین سے ملا ہوں۔ وہ ایک قابل تعریف نوجوان لڑکا ہے۔ وہ یہاں آئے اور وزیر اعظم کے ساتھ بھی ملے‘‘۔

غفور نے مزید کہا کہ ’’جو جائز مطالبات تھے وہ ہم نے مان لیے ہیں‘‘۔

پشتین اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ اُن کی تحریک میں ملک سے باہر تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔

بدھ کے روز ’فیس بک‘ پر براہِ راست وڈیو براڈکاسٹ میں پشتین نے کہا کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہم این ڈی ایس (افغان انٹیلی جنس ایجسی) اور ’آر اے ڈبلیو‘ (بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی) کے ایجنٹ ہیں۔ میں اُن سے کہتا ہوں کی ثابت کرو‘‘۔

بقول اُن کے، ’’میں ایک ہزار ثبوت نہیں مانگتا۔ صرف ایک ہی کافی ہوگا‘‘۔

اپنے شائقین اور حامیوں کو پیغام دینے کے لیے پشتین نے رفتہ رفتہ سماجی رابطے کے میڈیا کا سہارا لینا شروع کیا ہے، یہ شکایت کرتے ہوئے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اُن کی تحریک کو کوریج نہیں دیتے۔

عاصم یوسف زئی، ڈی سی سے تعلق رکھنے والے مصنف ہیں۔ اُنھوں نے اپنے ٹوئٹر پر تحریر کیا ہے کہ ’’پشتون ’لونگ مارچ‘ کی خبر ’نیو یارک ٹائمز‘ تک تو پہنچ گئی ہے، لیکن پاکستانی میڈیا ابھی تک اس سے دور ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں ہے‘‘۔

پشتین نے فروری میں کہا کہ ’’اگر ایک جانور گٹر میں گر پڑتا ہے، ذرائع ابلاغ اس کی خبر ضرور دیں گے۔ ہمارا مارچ ہفتوں تک پُرامن طریقے سے جاری رہا، لیکن مقامی میڈیا نے اس کی خبر نہیں دی۔ ہم نے اِسی شدید امتیاز کے خلاف اسلام آباد میں مظاہرہ کیا، جو نظام میں ہمارے خلاف موجود ہے‘‘۔