خانہ جنگی کے اختتام اور غلامی کے خلاف آئینی ترمیم منظور کروانے کے کچھ ہی دن بعد لنکن ایک انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ لیکن, امریکی عوام نے انکے سفر کو جاری رکھا، اقلیتوں کو آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوتے رہے
واشنگٹن —
امریکہ کے سولہویں صدر ابراہام لنکن کی صدارت کے اہم واقعات کو ایک مختصر سی فیچر فلم ’لنکن‘ میں سمودینا ہالی ووڈ ڈائریکٹر اسٹیون اسپیل برگ کا ایک نیا کارنامہ ہے۔
اِس فلم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ خود امریکی تاریخ کے اس انتہائی اہم دور کا حصہ رہے ہوں۔ یہ فلم بہرحال ہر زاویے سے قابلِ تعریف ہے، لیکن ایک تھیٹر کے آرام کے ساتھ یہ فلم چند لمحوٕں میں بہت کچھ سکھا تی ہے۔
ڈیڑھ سو سال پہلے امریکی قوم نے اس سوال پر لاکھوں جانیں لٹادیں کہ کیا ایک انسان کسی دوسرے انسان کو اپنی ذاتی غلامی میں رکھ سکتا ہے! جنوبی ریاستوں میں تقریباً سب ہی-- عوام اور بڑے بڑے نامی گرامی جغادری --اِس بات پر مصر تھے کہ یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ امریکہ کی معیشت کو آگے بڑھانےاور اپنی طرِز زندگی کو قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے! اِس مکروہ عمل کے حق میں کئی مذہبی فتوے بھی باآسانی دستیاب تھے۔
لنکن نے نہ صرف اس قبیح پریکٹس کو غیرقانونی قرار دے دیا، بلکہ فولادی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ریاستوں کو ایک طویل خانہ جنگی کےبعد شکست بھی دی جنہوں نے خصوصاً غلامی کے معاملے پر یونین سے علیحدگی کا اعلان کرکے ایک نئی مملکت کا اعلان کردیا تھا جسے وہ کنفیڈریٹ اسٹیٹس آف امریکہ یعنی سی ایس اے کہتے تھے اور اس کا ایک الگ صدر ، جیفرسن ڈیوس، بھی منتخب کرلیا گیا تھا۔ اس چار سالہ خانہ جنگی میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور سویلین اموات کا تو کوئی باقائدہ شمار ہی نہیں۔
لنکن کا انسانیت اور انسانی اقدار پر مکمل یقین اور اُس وقت کے نسبتا ً ایک نئے ملک کو ایک غیر انسانی فعل سے نجات دلانے کے لیے انکی غیر متزلزل یکسوئی اور حوصلے نے انسانی تاریخ پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے، جوکہ تاریخ کا حصہ ہے، کہ لنکن نے اپنے ( نیک) مقاصد کے حصول کے لیے کچھ ایسے بھی اقدامات کیے جو مورخین کے لیے زیادہ قابل تحسین نہیں رہے۔ ان میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ غلامی کو ختم کرنے کے لیے تیرہویں آئینی ترمیم کے لیے کانگریس میں جب ووٹوں کی کمی دیکھی گئی تو کس طرح کچھ ٹھگوں نے ، جن کی مماثلت آج کے لابیسٹ سے دی جاسکتی ہے، دھونس، رشوت، اور جذباتی بلیک میل سےلنکن کے لیے وہ مطلوبہ ووٹ حاصل کرلیے۔
خانہ جنگی کے اختتام اور غلامی کے خلاف آئینی ترمیم منظور کروانے کے کچھ ہی دن بعد لنکن ایک انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ لیکن امریکی عوام نے انکے سفر کو جاری رکھا، اقلیتوں کو آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوتے رہے۔
اگر لنکن1861ء میں صدر منتخب نہ ہوتے، غلامی کے خلاف ایک واضح موقف نہ اختیار کرتے اور علیحدگی کا اعلان کرنے والی جنوبی ریاستوں کے خلاف دل پرپتھر رکھ کر جنگ نہ کرتے تو خیال کریں کہ آج کی دنیا کیا ہوتی؟ کم از کم اوباما جو لنکن کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں ، امریکہ کے صدر نہ ہوتے!
اِس فلم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ خود امریکی تاریخ کے اس انتہائی اہم دور کا حصہ رہے ہوں۔ یہ فلم بہرحال ہر زاویے سے قابلِ تعریف ہے، لیکن ایک تھیٹر کے آرام کے ساتھ یہ فلم چند لمحوٕں میں بہت کچھ سکھا تی ہے۔
ڈیڑھ سو سال پہلے امریکی قوم نے اس سوال پر لاکھوں جانیں لٹادیں کہ کیا ایک انسان کسی دوسرے انسان کو اپنی ذاتی غلامی میں رکھ سکتا ہے! جنوبی ریاستوں میں تقریباً سب ہی-- عوام اور بڑے بڑے نامی گرامی جغادری --اِس بات پر مصر تھے کہ یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ امریکہ کی معیشت کو آگے بڑھانےاور اپنی طرِز زندگی کو قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے! اِس مکروہ عمل کے حق میں کئی مذہبی فتوے بھی باآسانی دستیاب تھے۔
لنکن نے نہ صرف اس قبیح پریکٹس کو غیرقانونی قرار دے دیا، بلکہ فولادی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ریاستوں کو ایک طویل خانہ جنگی کےبعد شکست بھی دی جنہوں نے خصوصاً غلامی کے معاملے پر یونین سے علیحدگی کا اعلان کرکے ایک نئی مملکت کا اعلان کردیا تھا جسے وہ کنفیڈریٹ اسٹیٹس آف امریکہ یعنی سی ایس اے کہتے تھے اور اس کا ایک الگ صدر ، جیفرسن ڈیوس، بھی منتخب کرلیا گیا تھا۔ اس چار سالہ خانہ جنگی میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور سویلین اموات کا تو کوئی باقائدہ شمار ہی نہیں۔
لنکن کا انسانیت اور انسانی اقدار پر مکمل یقین اور اُس وقت کے نسبتا ً ایک نئے ملک کو ایک غیر انسانی فعل سے نجات دلانے کے لیے انکی غیر متزلزل یکسوئی اور حوصلے نے انسانی تاریخ پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے، جوکہ تاریخ کا حصہ ہے، کہ لنکن نے اپنے ( نیک) مقاصد کے حصول کے لیے کچھ ایسے بھی اقدامات کیے جو مورخین کے لیے زیادہ قابل تحسین نہیں رہے۔ ان میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ غلامی کو ختم کرنے کے لیے تیرہویں آئینی ترمیم کے لیے کانگریس میں جب ووٹوں کی کمی دیکھی گئی تو کس طرح کچھ ٹھگوں نے ، جن کی مماثلت آج کے لابیسٹ سے دی جاسکتی ہے، دھونس، رشوت، اور جذباتی بلیک میل سےلنکن کے لیے وہ مطلوبہ ووٹ حاصل کرلیے۔
خانہ جنگی کے اختتام اور غلامی کے خلاف آئینی ترمیم منظور کروانے کے کچھ ہی دن بعد لنکن ایک انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ لیکن امریکی عوام نے انکے سفر کو جاری رکھا، اقلیتوں کو آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوتے رہے۔
اگر لنکن1861ء میں صدر منتخب نہ ہوتے، غلامی کے خلاف ایک واضح موقف نہ اختیار کرتے اور علیحدگی کا اعلان کرنے والی جنوبی ریاستوں کے خلاف دل پرپتھر رکھ کر جنگ نہ کرتے تو خیال کریں کہ آج کی دنیا کیا ہوتی؟ کم از کم اوباما جو لنکن کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں ، امریکہ کے صدر نہ ہوتے!