پاکستان کے جوہری نظام کا تحفظ، ماہرین کی تعریف

  • خلیل بگھیو
اس ضمن میں، کین لؤنگو نے کہا کہ پاکستان کی کوششیں ’سنجیدہ‘ نوعیت کی ہیں
جمعرات کے دِن ہیگ میں سائنسی علوم کے ماہرین، تحقیق کاروں اور تجزیہ نگاروں پر مشتمل جوہری ’نالیج سمٹ‘ نامی دو روزہ اجلاس کے پہلے دِن اخباری کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں، شرکا نے پاکستان کے جوہری نظام کے محفوظ ہونے کو سراہا۔ تاہم، ساتھ ہی اُنھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اور رابطوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

بقول ماہرین، باہمی رابطے بڑھانے کے حوالے سے دونوں ہمسایہ ممالک نے خاصی پیش رفت دکھائی ہے، جسے مزید مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے۔

ماہرین میں ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر، میتھو بَن؛ ’پارٹنرشپ فور گلوبل سکیورٹی‘ کی سینئر تجزیہ کار، مشیل کین؛ ’نیوکلیئر تھریٹ اِنی شئیٹو‘ کی سینئر اہل کار، دیپتی چوبے؛ ’پارٹنرشپ فور گلوبل سکیرٹی‘ کے سربراہ، کین لؤنگو؛ ’این کے ایس‘ کے سینئر تحقیق کار، پال ولکے شامل تھے۔

اس ضمن میں، کین لؤنگو نےکہا کہ پاکستان کی کوششیں ’سنجیدہ انداز‘ پر مبنی ہیں۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ عالمی برادری اس بات کی خواہاں ہے کہ استحکام کو فروغ ملے۔ بقول اُن کے، اپنے آپ کو اونچا دکھانے کی بجائے، پاکستان اور بھارت اپنےتعلقات ٹھوس بنیادوں پر استوار کریں۔


میتھو بَن نے کہا کہ پاکستان کو شدت اور انتہا پسندی کا سامنا ہے، ’اور القاعدہ اور دیگر دہشت گرد اور غیر ریاستی عناصر سرگر م عمل ہیں۔‘

مشیل کین نے ’سینٹرز آف ایکسیلنس‘ قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اِن کے قیام کے سلسلے میں ’سیاسی عزم‘ درکار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے حوالے سے، اُن کا کہنا تھا کہ یہ رابطے کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔

دیپتی چوبے نے جوہری سلامتی سے متعلق کہا کہ پاکستان دفاعی نوعیت کے بہتر اقدام پر عمل پیرا ہے۔ لیکن، بقول اُن کے، سول سوسائٹی اور عوام کی سوچ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

اِس ضمن میں، اُنھوں نے مشورہ دیا کہ باہمی سطح پر موجودہ اعتماد سازی کے کام کو تقویت دی جانی چاہیئے؛ اور سویلین سطح پر جوہری مواد کو محفوظ بنانے کےلیے کوششی کی جانی چاہئیے۔

ہیگ میں اگلے ہفتے شروع ہونے والے جوہری سلامتی کے سربراہ اجلاس کے بارے میں میتھیو بَن نے کہا کہ پچھلے چند برسں کے دوران نیوکلیئر سکورٹی کے سلسلے میں قابل قدر پیش رفت ہوئی ہے، جو بات حوصلہ افزا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ کے رہنما، اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی تنظیم برقرار ہے، اور اُس کے عزائم باقی ہیں جبکہ، بقول اُن کے، اِس دہشت گرد تنظیم کی استعداد کے بارے میں واضح تفصیل معلوم نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ دہشت گرد عناصر اب بھی بھاری سطح کا افزودہ جوہری مواد حاصل کرنے کی کوششں میں ہیں، تاکہ دیسی ساختہ قسم کے’ڈرٹی بم‘ کے دھماکے سے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی جا سکے۔

مشیل کین نے کہا کہ جوہری سلامتی کرہ ارض کی بقا کا معاملہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اُنھوں نے کہا کہ 2010ٗ اور 2012کے واشنگٹن اور سیئول میں منعقدہ نیوکلیئر سکیورٹی سربراہ اجلاسوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں جوہری مواد کے تحفظ کے حوالے سے آگہی پیدا ہوئی ہے؛ جب کہ پچھلے اجلاس کے بعدسولین سطح کے اونچے سطح کے افزودہ جوہری مواد کے 35 مقامات کم ہوکر 25 رہ گئے ہیں۔

دیپتی چوبے نے کہا کہ ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ خاصی پیش رفت کے بعد بھی بین الاقوامی برادری منظم نہیں۔

کین لؤنگو نے کہا کہ نظام میں اب بھی ’کمزور کڑیاں‘ موجود ہیں، جنھیں دور کیے جانے کی ضرورت ہے۔

اُن کے الفاظ میں سارا معاملہ ذمہ داری کا ہے، جسے ہر ملک کو اپنے اور دوسرے کے مفاد میں ادا کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ اونچے درجے کے افزودہ یورینئیم کے بارے میں تونائی کے عالمی ادارے کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، محض لیپا پوتی کی کوئی اہمت نہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ بنیادی طور پر جوہری سلامتی کے اجلاسوں کو منعقد کرنے کا سہرا امریکہ، جمہوریہ کوریا اور نیدرلینڈ کے سر ہے، اور یہ سہ فریقی کاوش ضرور رنگ لائے گی۔
لؤنگو نے کہا کہ ایک ’سکیورٹی امبریلا‘ وقت کی ضرورت ہے، لیکن سلامتی سے متعلق اس کوشش میں کوئی رخنہ باقی نہیں رہنا چاہیئے۔

ایک سوال کے جواب میں، کین لؤنگو نے کہا کہ ایران اور شمالی کوریا کو ہیگ سربراہ اجلاس میں اس لیے مدعو نہیں کیا گیا، کیونکہ اُن پر اقوام متحدہ کی طرف سے تعزیرات لاگو ہیں، اور معاہدوں پر مکمل عمل درآمد ہونا باقی ہے۔