ذہانت ایک ایسی چیز ہےجو انسان کو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے اور ذہانت کو تعلیمی کامیابی کی کلیدتصور کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن اب ایک نئے جائزے سے پتا چلا ہے کہ صرف ذہانت کے بل بوتے پر بچوں کی مستقبل کی کامیابیوں کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے بلکہ ماہرین کا کہنا ہےکہ ذہانت کے مقابلے میں بچے کی شخصیت مستقبل کی کامیابیوں کے لیے زیادہ بڑی پیش گوئی ہو سکتی ہے۔
مطالعے سے وابستہ ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہےکہ انھیں اپنے بچوں کی ذہانت پر توجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت کو بہتر بنانے پر بھی بھر پور توجہ دینی چاہیئے کیونکہ تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے بچے کی شخصیت ذہانت سے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔
'گریفتھ یونیورسٹی اسکول' کے اطلاقی نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر آرتھر پوروپاٹ نے کہا کہ، ان کے مطالعے سے تعلیمی کامیابی کے لیے ذہانت کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر آپ کا بچہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتا ہے اور زیادہ تر گم سم رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہوشیار بھی ہے تو ایسے بچے کو اس کے خود ساختہ ماحول سے باہر نکالنا اورمسلسل تعلیم میں مشغول رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شخصیت کی پانچ خوبیوں میں سے 'دہانت' اور 'کشادہ دلی' کی خوبیاں تعلیمی کامیابیوں کے لیے زیادہ بہتر پیشن گوئی ثابت ہوتی ہیں کیونکہ یہ دونوں خوبیاں دوسرے الفاظ میں 'سخت محنت ' اور'تجسس'کا اظہار کرتی ہیں جن کی مدد سے ہم بہت سی چیزوں کےحاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں قطع نظر اس کے، کہ ہم کتنے ذہین ہیں ۔
علاوہ ازیں شخصیات کی پانچ خوبیاں جن میں 'موافقت' اور سماجی طور پر سرگرم ہونے کے علاوہ 'جذباتی استحکام' شامل ہے، سیکھنے کے لیےحکمت عملی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ 'کشادہ دلی' اور' دہانت' کی خوبی کے لیے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ میں تعلیم میں مشغول ہونے کےامکانات زیادہ ہوتے ہیں پھر وہ چاہے اساتذہ سے بات چیت کے ذریعے یا پھر دوستوں کی مدد کر کے تعلیم سے منسلک رہتے ہوں۔
بعض مطالعوں کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ایسے طلبہ جو خود کو کافی ہوشیار تصورکرتے ہیں اکثر زیادہ محنت سے جی چراتے ہیں جس کی وجہ سےکلاس میں پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن اس کےبرعکس مدد گار شخصیت کا حامل طالب علم ایک اوسط طالب علم کے مقابلےمیں اعلی گریڈ حاصل کرسکتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر آرتھرنے بتایا کہ تجربے کے دوران طلبہ نےاپنی شخصیت کی درجہ بندی کےذریعے یونیورسٹی کی تعلیمی کامیابیوں کے لیے پیشن گوئی کی جیسا کہ وہ اپنے امتحانی نمبر دیکھ کر کرتے ہیں لیکن جب ان کی پہچان کے لوگوں نے طلبہ کو شخصیت کی بنیاد پر نمبر دئیے تو ان کی پیشن گوئی متوقع گریڈ کےحوالے سے چار گنا زیادہ درست ثابت ہوئی ۔
ڈاکٹر آرتھر نے کہا دیگر مطالعوں سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ شخصیات کی خوبیوں کے فوائد بالغ ہونے تک آپ کے ساتھ رہتے ہیں ۔
ایک پچھلے مطالعے سے پتا چلتا ہےکالج کے سابق طلبہ تنظیم کےمقبول طلبہ گریجویشن کے 35 بعد اپنے غیرمقبول ساتھیوں کی نسبت 2 فیصد زیادہ کمائی کر رہے تھے۔
بقول ڈاکٹر آرتھر اس کی وجہ ان کی شخصیت کی کچھ خوبیاں تھیں جو انھیں لوگوں کے ساتھ مربوط کرنےاور بہترمواقع فراہم کرنے میں مدد کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر آرتھر کے مطالعے سے ایک اچھی خبر یہ ملتی ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی شخصیت میں کبھی بھی تبدیلی لاسکتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کی ذہانت میں کمی یا کوتاہی ہے توآپ اپنی شخصیت پر کام کرنا شروع کردیں۔