یونیورسٹی آف میری لینڈ میں منگل کے روز ’پاکستان میں تعلیمی بحران‘ کے حوالے سے ’تعلیم اور رویہ‘ کے موضوع پر ایک سمپوزیم منعقد ہوا۔ اس موقع پر، پروفیسر مدیحہ افضال کی تحقیقی رپورٹ بھی پیش کی گئی جو انھوں نے ’یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘ کے تعاون سے مرتب کی ہے۔
اپنے کلمات میں، پروفیسر مدیحہ نے کہا کہ ’جنرل ضیا کے دور میں جو تعلیمی نصاب مرتب کیا گیا اس میں طلباء ملک کے حقیقی مسائل کے حل کی راہ نہیں پاتے‘۔
بقول اُن کے، ’اس نصاب کی وجہ سے51 فیصد طلباءو طالبات اور القائدہ کے مقابلے میں بھارت کو ملک کے لئے حقیقی خطرہ قرار دیتے ہیں، جبکہ صرف دو فیصد لوگ القاعدہ کو خطرہ سمجھتے ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی نصاب اورعالمی معیار میں مطابقت پیدا کی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
’یو ایس انسٹیٹوٹ آف پیس‘، واشنگٹن کا معتبر تھنک ٹینک ہے، جس میں اہم ملکی وقومی مسائل پر تحقیق کی جاتی ہے ۔ پاکستانی نظام تعلیم پر یہ تحقیق بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کانفرنس سےمیری لینڈ یونیورسٹی میں ایجوکشن کی پروفیسر، ڈاکٹر ربیکا فوکس اور ’وڈرو ویلسن انسٹیٹوٹ‘ کے مائیکل کوگلمین نے بھی مقالہ پڑھا۔
پروفیسر ربیکانے پاکستان کے تعلیمی نظام کے حوالے سے سفارش کی کہ تعلیم وتربیت ایسی زبان میں ہونی چاہئیے جس میں ٹیچرآسانی محسوس کرے اور اسے عبور بھی حاصل ہو۔
وڈرو ویلسن کے مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے، جنھیں ملازمت کی فراہمی کے لئے سالانہ جی ڈی پی کی شرح کم سے کم نو فیصد ہونی چاہئیے،جس مقصد کے حصول کےلئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جائے۔