پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں حالیہ بارشوں کے باعث ہونے والی تباہی سے 450 ارب روپے سے زائد کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں رواں برس معمول سے 500 فی صد سے زائد بارشیں ہوئیں۔ جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اپیل پر سیلاب متاثرین کے لیے بین الاقوامی تنظیموں اور مالی اداروں نے 50 کروڑ ڈالر سے زائد کی فوری امداد کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں بتایا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بین الاقوامی تنظیموں اور مالی اداروں کے نمائندوں سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ سیلاب متاثرین کے ریسکیو اور انہیں نقد رقوم کی تقسیم کے لیے انتظامات پر غور کیا گیا۔
اس موقع پر بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سیلاب متاثرین کی فوری بحالی کے اقدامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے فلڈ ریلیف کیش پروگرام کے تحت 25 ہزار فی خاندان امداد کیلئے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اسی ہفتے امداد کی منتقلی یقینی بنائی جا رہی ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ابتدائی تیار کردہ رپورٹ میں حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اصل نقصانات ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں جو پورے صوبے میں ہونے والے نقصانات کے جامع سروے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔
سندھ میں رواں سال جولائی-اگست کے مون سون سیزن میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں۔ محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں جولائی میں اوسط سے 308 فی صد اور اگست میں اوسط بارشوں سے 561 فی صد زیادہ بارش اب تک ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بارشوں نے پورے صوبہ سندھ کے تمام ہی اضلاع کو متاثر کیا ہے، جس سے 2010 اور 2011 کے سیلاب سے بھی بڑے پیمانے کا انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔
ان دو برسوں میں آنے والے سیلابوں کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک نے ملک میں سیلاب سے نقصانات کا کُل تخمینہ 324 ارب روپے سے زائد لگایا تھا جس میں صرف سندھ میں310 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ تاہم 11 سال بعد اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ آنے والی تباہی سے اس بار یہ نقصان 450 ارب روپے سے زائد رہنے کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔
تباہ کُن بارشوں اور دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب سے صوبے کے تمام ہی 30 اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 22 کو مکمل طور پر اور ایک ضلعے کے دو دیہات کو پہلے ہی آفت زدہ قرار دیا جاچکا ہے۔
صوبے میں مجموعی طور پر اب تک کے اندازوں کے مطابق 5 ہزار 718 دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ بارشوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ڈسٹرکٹ نوشہرو فیروز کے پڈعیدن شہر میں حالیہ موسم میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 1542 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ ہوچکی ہے۔
ریکارڈ توڑ بارشوں سے 216 جانیں ضائع اور 700 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ جانی نقصان کے علاوہ املاک، انفراسٹرکچر بشمول سڑکوں، مویشیوں اور فصلوں کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
ابتدائی اندازے کے مطابق صوبے میں اب تک 15 لاکھ کچے گھر متاثر ہوئے ہیں اور اگر ان گھروں کے مکینوں کو ایک لاکھ روپے بھی فی کس دیے جائیں تو یہ 150 ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صوبے میں 90 فی صد کھڑی فصلیں تباہ؛ نقصانات کا تخمینہ 185 ارب روپے
دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں27 لاکھ 53 ہزار ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئی ہیں جن میں سے 19 لاکھ سے زائد ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
ان میں کپاس، کھجور، گنا، چاول، سبزیاں، ٹماٹر، مرچ، پیاز ااور دیگر شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر صوبے میں صرف فصلوں کی تباہی سے تقریباً 185 ارب روپے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان کپاس کی فصل کو پہنچا ہے جس کا تخمینہ 135 ارب روپے سے زائد کا لگایا جارہا ہے۔ ماہرینِ زراعت کا کہنا ہے کہ اس قدر بڑے نقصان سے ملک کی سب سے بڑی برآمدی جنس یعنی ٹیکسٹائل کو شدید دھچکا پہنچنے کا خدشہ ہے۔
صوبے میں سڑکوں، پلوں اور راستوں کی تعمیر کے لیے 72 ارب روپے درکار
بارشوں اور دریا میں سیلابی کیفیت نے آبپاشی کے انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کا تخمینہ آٹھ ارب سے زائد لگایا جارہا ہے۔
صوبے کی 570 اہم شاہراہوں کی 22 ہزار کلومیٹر لمبی سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں جن کی مرمت کا تخمینہ 22 اعشاریہ 8 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں وہ سڑکیں شامل نہیں جو صوبائی دارالحکومت کراچی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اگر انہیں بھی شامل کرلیا جائے تو یہ رقم 72 ارب روپے سے زائد کی بن جائے گی۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ابتدائی تخمینوں میں پورے صوبے کے بلدیاتی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر بڑے شہروں میں شامل نہیں ہیں۔
اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر سرکاری دفاتر کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ بھی ابھی مرتب نہیں کیا گیا ہے اور اس سے نقصانات کی لاگت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
ابتدائی تخمینوں کے مطابق مون سون کی حالیہ بارشوں میں 1.2 ارب روپے مالیت کے مویشی ہلاک ہوئے لیکن یہ تعداد اب بھی کم نظر آرہی ہے کیونکہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے یہ معلومات سڑکیں اور رابطے کے دیگر ذرائع تباہ ہونے کے باعث جمع نہیں کی جاسکیں۔
"صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ ہے"، فوج کے ساتھ مل کر متاثرین کی مدد کا فیصلہ
وزیراعلیٰ سندھ نے اس صورتِ حال کو انتہائی "تکلیف دہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریلیف کیمپوں کے دورے کے دوران انہوں نے خواتین اور بچوں کی آنکھوں میں بے بسی دیکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس نازک صورتِ حال نے انتہائی رنجیدہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت متاثرہ لوگوں کے لیے خیمے، مچھر دانیوں، بستر، کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور دیگر چیزوں کا بندوبست کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دریں اثنا، صوبائی حکومت نے ریلیف، ریسکیو، سروے اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے سندھ میں تعینات پاکستانی فوج کی 5ویں کور سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھوک سے ہلاکتیں اور گندے پانی سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ
ادھر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پہنچنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ افراد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بارش کے پانی کی نکاسی اور دور دراز علاقوں میں سڑکوں کے نیٹ ورک کے ٹوٹنے کی وجہ سے گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور بھوک کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
دور دراز علاقے ہی نہیں بلکہ بڑے شہروں جیسے لاڑکانہ، شکار پور، نوشہرو فیروز، پڈ عیدن، خیرپور اور نواب شاہ میں بھی پانی کی نکاسی کے لیے ریاستی مشینری نظر نہیں آ رہی ہے۔ پانی کی نکاسی نہ ہونے کے سبب نواب شاہ ایئرپورٹ کو فی الحال بند کردیا گیا ہے۔
بڑی تعداد میں لوگوں نے قومی شاہراہ اور نسبتاً اونچے مقامات پرپناہ لے رکھی ہے اور پانی اترنے کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن دریا میں اونچے درجے کے سیلاب اور سیم نالے بپھر جانے کی وجہ سے پانی کی نکاسی ممکن نہیں ہوپارہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ صوبے میں ریلیف سرگرمیاں شروع کی جاچکی ہیں جس میں حکومت کے علاوہ غیر سرکاری ادارے یعنی این جی اوز بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت متاثرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر دس لاکھ خیموں، 30 لاکھ مچھر دانیوں، 20 لاکھ راشن بیگس اور دس لاکھ سے زائد ترپالوں سمیت دیگر امدادی اشیاء کی شدید کمی لاحق ہے۔
یہی نہیں بلکہ شہروں، قصبوں اور دیہات سے پانی کی نکاسی کے لیے بڑی مشینری جس میں کرینیں، ایکسکیویٹرز، ڈمپرز اور ڈی واٹرنگ پمپس، فائبر اور ربر بوٹس، فیومیگیشن مشینیں اور اس طرح کی دیگر مشینری کی اشد ضرورت بتائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ بھاری بارشوں سے ہونے والے اصل نقصانات کا تعین کرنے کے لیے جامع اور منظم سروے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل اس طرح کا تخمینہ 2011 کے سُپر فلڈ کے تناظر میں حکومت پاکستان کی درخواست پر دو معروف بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ایسی اسٹڈی نہ صرف پورے بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ تیار کرنے کے لیے درکار اہم ضرورتوں کی وضاحت کرے گی بلکہ بحالی اور ترقی کے لیے ترقیاتی سرگرمیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کا موقع بھی فراہم کرے گی۔
ادھر مقامی انتظامیہ کی سطح پر مبینہ بدانتظامی، امدادی سامان کا غلط استعمال اور امدادی سامان کی فروخت کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ لاڑکانہ میں امدادی سامان کی مبینہ فروخت کی خبریں سامنے آنے پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے مقامی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔