قلعہ دراوڑ: کھنڈرات میں بدلتا تاریخی ورثہ

مٹی کی اینٹوں سے تعمیر کردہ 'قلعہ دراوڑ' کی دیواروں کی اونچائی 30 میٹر ہے۔

قلعے کے چاروں اطراف دائرے نما برج موجود ہیں جن کی کُل تعداد 40 ہے۔

چھوٹی اینٹوں سے بنے برجوں کو مختلف اور دلکش ڈیزائن سے تعمیر کیا گیا ہے۔

قلعے میں اُس دور کی تعمیر کردہ محرابیں آج بھی موجود ہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محرابیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔

رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کردہ کمروں کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے چھتیں گر چکی ہیں جب کہ دیواروں کی اینٹیں بھی زمین بوس ہو رہی ہیں۔

لیکن قلعے کی ظاہری شان و شوکت کے باوجود قلعے کے اندر کی عمارتیں اب کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں۔

قلعے کی عمارت کو ہوا دار رکھنے کے لیے روشن دان بھی بنائے گئے تھے۔

قلعے کے مرکزی صحن میں ایک توپ بھی دکھائی دیتی ہے جو غالباً بیرونی حملہ آور سے تحفظ کے لیے نصب کی گئی تھی۔

قلعے کے باہر 'عباسی مسجد' بھی موجود ہے جسے نواب بہاول خان نے سن 1849 میں تعمیر کیا تھا۔

قلعے کے قریب علاقوں کے رہائشی آج بھی آمدورفت کے لیے اونٹ کا استعمال کرتے ہیں۔

'دراوڑ قلعہ' سے چند میٹرز کے فاصلے پر عباسی خاندان کا ایک شاہی قبرستان بھی موجود ہے۔

یہ شاہی قبرستان آج بھی عباسی خاندان کے افراد کے زیرِ انتظام ہے۔

قبرستان کے ایک بڑے کمرے میں بہاولپور پر حکمرانی کرنے والے 12 نوابوں کی قبریں ہیں۔

یہاں موجود کمروں پر روایتی سندھی اور جنوبی پنجاب کی پہچان سمجھے جانے والے نیلے رنگ سے خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔