عیسائی، یہودی اور مسلمان اگر ایک کمرے میں بند ہوں...

کلاس کے بعد ایک چیز تو سمجھ میں آنا شروع ہوگئی کہ قومیں تاریخ کی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور تہذیبیں اس سے کہیں زیادہ پرانی اور بڑی غلط فہمیوں کے بعد وجود میں آتی ہیں۔
میرے پچھلے بلاگ 'جھوٹ بولتی ہے مشرقی تہذیب' کو پڑھنے کے بعد ایک ساتھی نے فیس بک پر رابطہ کیا اور علامہ اقبال کو خوب برا بھلا کہا۔ ان کی نظر میں علامہ اقبال split personality disorder کا شکار تھے۔ جب یہ مغرب میں ہوتے تھے تو Secular ہوتے تھے اور بر صغیر میں اسلام کی باتیں کرتے تھے۔ اس سے پہلے کے میں علامہ کی کوئی صفائی پیش کروں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔

براک (Brock) یونیورسٹی میں Semiotics کی کلاس مجھے خاصی مشکل لگ رہی تھی۔ یہ Communication Studies کے مشکل ترین مظامین میں سے ایک تھا اور اس میں failure rate اس قدر زیادہ تھا کہ جس سیمسٹر میںSemiotics کی کلاس لی جاتی تھی اس سیمسٹر میں لوگ باقی courses کم کر لیتے تھے تاکہSemiotics کو زیادہ توجہ دی جا سکے۔

ہمارے استاد Professor Bohden ہوا کرتے تھے جو Linguistics بھی پڑھاتے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی کلاس میں ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میں سے آدھے سے زیادہ لوگ فیل ہو جائیں گے اور میں پہلے سے بتا دیتا ہوں کہ وہ کون ہوں گے۔ Semiotics ایک مضمون نہیں بلکہ سوچنے کا انداز ہے جس میں انسان خیالات کے بارے میں الفاظ اور زبان استعمال کیے بغیر سوچنا سیکھ جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی سوچ کو زبان اور الفاظ سے آزاد کرا لیا تو آپ Semiotics میں پاس ہو جائیں گے اور اگر آپ کی سوچ زبان اور الفاظ کے چنگل میں پھنسی رہی تو آپ فیل ہوں گے۔

اس کورس کا assignment یہ تھا کہ کلاس میں موجود مسلمان، عیسائی اور یہودی اپنی اپنی دینی کتابوں کو پڑھنے کے بعد ان کو ایک جملے میں پیش کریں۔ جی ہاں! صرف ایک جملے میں۔ اس کے لیے ہمیں آٹھ مہینے دیے گئے تھے۔ اس وقت کینیڈا کے شہر سینٹ کیتھرین میں زبر دست برفانی طوفان آیا ہوا تھا اور پورا شہر برف میں دفن ہو چکا تھا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ہم چند دوست کینٹین میں بیٹھ جاتے تھے، باہر برفانی طوفان کو ایک شیشے کی کھڑکی میں سے دیکھتے جاتے تھے اور گرم کافی کے گھونٹ پی پی کر اپنی دینی کتابوں میں سے نوٹس بناتے تھے ۔ یعنی تین مسلمان، چار یہودی اور پانچ یا چھ عیسائی Semiotics کی کلاس کے بعد اس cafeteria میں بیٹھ کروہ کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو ان کے خدا نے بھی نہیں کیا تھا۔ تمام دینی تعلیمات کو صرف اور صرف ایک ہی جملے میں پیش کرنا۔

میں نے ایک بار Professor Bohden سے کہا کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو کیا اللہ میاں خود نہ کر ڈالتے؟ آخر ان کو کیا پڑی تھی اتنی لمبی لمبی کتابیں نازل کرنے کی؟ وہ بہت ہنسے اور پھر بولے کہ میں خود تو مذہبی آدمی نہیں ہوں مگر ایک Semiotics کے پروفیسر کی حیثیت سے یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ اللہ میاں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مگر انسان اتنا بے وقوف ہے کہ اسے سمجھانے کے لیے یہ کتابیں لمبی کی گئی ہیں۔

جب تین ابراہیمی مذاہب کے ماننے والے تین گروپپس میں تقسیم ہو کر یہ کام کرنے کی کوشش کرتے تھے تو ہر گروپ میں ایک شخصیت ہمیشہ ایسی ہوتی تھی جو اپنے آپ کو اپنے مذہب کا علامہ سمجھتی تھی ۔وہ چاہتی تھی کے اپنے مذہب کی ایسی تشریح پیش کی جائے جو باقی دونوں گروپس سے مختلف ہو تاکہ ان کی ایک الگ دینی شناخت قایم رہے اور وہ باقیوں سے الگ نظر آئیں۔ یعنی Semiotics کا کورس ختم ہونے کے بعد مسلمان مسلمان رہیں، عیسائی عسیائی رہیں، اور یہودی یہودی رہیں۔

مگر ابراہیمی مذاہب کے درمیان ایسا کرنا آسان کام نہیں تھا۔ حضرت عیسیٰ کے اصول وہی تھے جو حضرت موسیٰ کے تھے اور وہ وہی تھے جو رسول پاک کے تھے۔ یعنی تینوں مذاہب کی تعلیمات کا Semiotic deduction کچھ ایک ہی قسم کا انسان پیدا کر رہا تھا۔ پھر Professor Bohden نے کہا کہ ایک دوسرے کی دینی کتابوں میں مت جھانکو۔ یعنی مسلمان صرف اپنی کتاب سے اصول نکالے گا، عیسائی اپنی میں سے اور یہودی اپنی میں سے۔

آخر دو سمسٹر گزرنے کے بعد ہم مسلمان وہ پہلا گروپ تھے جن کا ایک جملے پر اتفاق ہو گیا۔ یعنی ہمارے ذہنوں کے مطابق اگر پوری قرآنی تعلیمات کو ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ جملہ کیا ہو گا۔ مسلمان کی شناخت برقرار رکھنے کے لیے اسے ایسا جملہ بھی ہونا تھا جس پر باقی دو مذاہب اقرار نہیں کریں۔ جب پروفیسر کو یہ جملہ پیش کیا تو یہ کلمہ طیبہ تھا۔

None to be worshipped but God and Muhammad is the messenger of God

لیکن Professor Bohden نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ انہوں نے کلمہ پڑھا اور بولے کہ یہ کلمہ کسی ایسے آدمی کو کیسے سمجھائو گے جس کو معلوم ہی نہ ہو کہ تمہارے نبی کون تھے؟ اب ہم تینوں مسلمان سوچ میں پڑ گئے۔ Professor Bohden بولے کہ اس کے پہلے جملے سے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مگر جب تم کہتے ہو کہ رسول پاک اللہ تعالٰی کے نبی ہیں تو تم سمجھ رہے ہو کہ اس جملے کو سننے والا بھی رسول پاک کی سیرت سے اتنا ہی واقف ہے جتنے کے تم ہو۔ جائو حدیثوں کی جلدیں بھی کھولو، بخاری اور مسلم بھی پڑھو اور تمام کی تمام سیرت طیبہ کا ایک جملہ بنا کر لے آئو۔ جب عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کی بات کی تو ان کو بھی انہوں نے یہی کہا کہ ایک ایسے آدمی کو ایک جملے میں عیسائی بنائو جوحضرت عیسیٰ کو نہیں جانتا ہو۔ کلاس کو confuse کرنے کے بعد یہ ڈایٹ پیپسی کی بوتل کھول لیتے اور ٹہل ٹہل کر یہ کہتے:

“I am not interested in personalities. You must bring me principles.”

چھ ماہ گزرنے کے بعد ہم لوگ قرآن اور حدیث کا ایک جملہ تو نہیں بنا پائے مگر اتنا ضرور کیا کہ ایک پیرا گراف میں وہ بنیادی اصول لکھ دیے جو ہماری نظر میں ایک اسلامی معاشرے کا goal تھے۔ عیسائیوں نے بھی یہی کیا اور یہودیوں نے بھی یہی کیا۔ جب بنیادی اصول تینوں گروپوں نے پڑھ کر سنائے تو وہ اتنے یکساں تھے کہ تینوں مذاہب کو ایک دم سے Identity Crisis لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد کلاس میں تینوں مذاہب کے ماننے والوں میں اس بات پر لڑائی ہوئی کہ وہ اصول جن پر ان کا اتفاق ہے ان کو کیا نام دیا جائے؟

مسلمان کہتے تھے کہ یہ تو اسلامی تعلیمات ہیں، عیسائی کہتے تھے کہ یہ عیسائی مذہب ہے اور یہودی کہتے تھے کہ یہ ان کے اقدار ہیں۔ مگر سب سے حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ زیادہ تر کلاس اپنے آپ کو non-affiliated یا secular مانتی تھی۔ ان لوگوں کا بھی ان اصولوں پر اتفاق تھا جو دینی کتابوں سے اخذ کیے گئے تھے۔ مگر یہ لوگ کہتے تھے کہ یہ اصول ایک ایسی انسانی سوچ کی پیداوار ہیں جو مذہب سے آزاد ہو کر سوچ رہی ہے۔

جب یہ بحث شروع ہوئی تو Professor Bohden بولے کہ اس پورے کورس کا مقصد یہی بتانا ہے کہ دنیا میں تمام اختلافات کی وجہ Language ہے۔ اگر انسانوں کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ اپنے خیالات اور نظریات کو بغیر الفاظ اور زبان کے بتا سکیں تو دنیا کا ہر آدمی دوسرے سے اتفاق کرے گا۔ ان کا مشہور قول میرے کانوں میں آج تک گونجتا ہے،

Language was created for the purpose of communication but it is the main reason for miscommunication. Nations, religious groupings and civilizations owe their existence to misunderstandings created by language.

Semiotics کی کلاس کے بعد ایک چیز تو سمجھ میں آنا شروع ہوگئی کہ قومیں تاریخ کی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور تہذیبیں اس سے کہیں زیادہ پرانی اور بڑی غلط فہمیوں کے بعد وجود میں آتی ہیں۔ دنیا کی کسی بھی زبان کو استعمال کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے:

The true purpose of language is to neutralize itself.

مگر اگر زبان اور الفاظ سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو ختم کر دیا جائے تو دنیا سے قوم اور تہذیب اپنے مذہبی interpretations سمیت غائب ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ ان کو برقرار رکھنے کے لیے اس اجتماعی جہالت کی ضرورت پڑتی تھی جسے Nationalism اور تہذیب کی محبت کہا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اگر ابراہیمی مذاہب کی تعلیمات کو اس Semiotics کی کلاس میں کوئی سمجھا تھا تو وہ مسلمان، عیسائی یا یہودی نہیں بلکہ وہی اکثریت تھی جو اپنے آپ کو Secular کہتی تھی۔ انہوں نے اپنے Moral DNA پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ معاشرے تیار کر دیے تھے جو آج ابراہیمی مذاہب کی تعلیمات کی زیادہ بہتر عکاسی کر رہے ہیں بہ نسبت Theological States کےجو الفاظ اور زبان کے بحران سے نہ نکل سکیں۔

تمام مذہبی تعلیمات کو ایک جملے میں بیان کرنا، یہ وہ کام تھا جو ہم ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں سے Semiotics کی کلاس میں نہ ہو سکا مگر علامہ اقبال ہم سے بہت پہلے یہ کر چکے تھے۔ انہوں نے تمام مذاہب کی تعلیمات کو ایک ہی جملے میں سنا دیا تھا۔ وہ جملہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں:

"مذہب کا مقصد انسان کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ وہ کسی کا غلام نہیں ہے اور ان بے زبان مجسموں سے زیادہ افضل ہے جن کے آگے وہ عبادت میں پڑا ہے"۔

The purpose of religion is to convince man that he is no ones slave and is not any less than the mute idols that he worships.”

بلاگ کے اختتام پر اقبال کی شاعری کے جواب میں کچھ کہنا چاہوں گا:

مانا کے ستاروں سے آگے اور بھی جہاں ہیں
پر شاہین میں آج امید پرواز کہاں ہے
ثقافت کے پنجرے سے محبت جو سکھا دی
باہر نکلتا ہے تو اس کا جہاں کرگس کا جہاں ہے
صف میں ایاز تو کھڑا ہے پر محمود کہاں ہے
عقل جہاں سکڑ جاتی ہے یہ داڑھی بڑھتی ہی وہاں ہے
جب سے شلوار چنگیزی کو سنت جو بنایا
جو ملا کی اذاں تھی وہی مجاہد کی اذاں ہے