ایک نہیں، 100 ووٹ ڈالئے !!

ہم حیران رہ گئے اور ان کی بات کاٹ کر بولے، ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس مرتبہ تو انتخابات انتہائی ’شفاف‘ اور ’غیر جانبدار‘ تھے؟‘‘ ہمارے دوست نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے، ’’پاکستان سے اتنے دور بیٹھے یہاں پر ’سب اچھا ہے‘ ہی لگتا ہے۔‘‘

واشنگٹن ۔۔۔ یوں تو انتخابات ہوئے اب کافی روز گزر چکے ہیں۔ لیکن یہ خمار ابھی بھی کسی نہ کسی صورت برقرار ہے۔ کیا کرتے، پاکستان جا کر ووٹ ڈال نہیں سکتے تھے اور بیرون ِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت حاصل نہیں تھی۔ یوں ٹی وی دیکھ دیکھ کر جی بہلاتے رہے۔ دل کر رہا تھا کہ واشنگٹن کی سڑکوں پر دیوانہ وار نکل پڑیں اور دنیا کو بتائیں ہمارا ملک اس جمہوریت کے راستے پر گامزن ہو رہا ہے جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔۔۔’شفاف‘ انتخابات کے انعقاد پر فخرالدین جی ابراہیم کی خدمت میں دست بستہ حاضر ہو کر مبارک دینے کا جی چاہتا تھا۔ جی تو یہ بھی چاہتا تھا کہ انتخابات کے بعد نتائج کو تسلیم نہ کرنے والے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دھرنا دئیے ہوئے ساتھیوں کو نصیحت کی جائے کہ ہوش کے ناخن لیں، نتائج تسلیم کریں اور انتخابات میں دھاندلی جیسے ’مکروہ‘ الزامات لگانا بند کریں۔ پاکستان ایک نئے راستے پر رواں دواں ہے، اس کی راہ کھوٹی نہ کریں۔۔۔ شاید مستی و سرشاری کی یہ کیفیت ابھی کئی روز جاری رہتی اگر حال ہی میں پاکستان سے واپس آنے والے ایک دوست سے گفتگو نہ ہوتی۔

لیکن اس گفتگو کے خلاصے سے پہلے قوم کو جمہوریت کی اُس پٹری پر چڑھنے کی مبارک لازم ہے، جس پر اصولاً برسوں پہلے چڑھ جانا چاہیئے تھا۔۔۔ لیکن قصور شاید ہمارے ملک کی پٹریوں کا ہی ہے جو نہ جمہوریت کا وزن سہار سکیں نہ ہی ریل گاڑیوں کا۔ یوں ہمارے ہاں جمہوریت اور ریلوے کا حشر کچھ ایک سا رہا۔۔۔ پٹریاں جگہ جگہ سے اکھڑ گئیں، ٹرینوں کے انجن کھڑے کھڑے زنگ آلود ہو گئے، بوگیاں بوسیدہ ہو گئیں، سیٹوں پر انگریزوں کے زمانے کے چڑھائے ہوئے غلاف رنگ تو کب کا چھوڑ چکے تھے اب سیٹوں کا ساتھ بھی چھوڑ چکے، ڈبوں میں لگے پنکھوں کے پر ٹوٹ چکے، پلستر اکھڑ گئے۔۔۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ انجن چلانے کے لیے ڈیزل تک ناپید ہو گیا۔۔۔

بالکل اسی طرح جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پیدائش سے لے کر اب تک ’جمہور‘ ناپید رہا ہے۔ جمہور کی دھجیاں تو پاکستان بننے کے چند سال بعد اُسی وقت اُڑا دی گئی تھیں جب فوجی بُوٹوں نے ’لالٹین‘ (فاطمہ جناح کا انتخابی نشان) کی روشنی ختم کرکے اس ملک کو آمریت کے اندھیروں میں دھکیلا تھا۔ نتیجتاً آمریت ایک ایسا بگڑا ہوا بچہ بن گیا جسے منانا، سمجھانا، بجھانا کسی کے بس میں نہ رہا۔۔۔ فوجی بُوٹوں کی چاپ جاری رہی۔ ستر کی دہائی میں ملک فوجی بوٹوں کی ٹاپ میں ہی دو لخت ہوا، اسی کی دہائی میں انہی بُوٹوں کی دھمک میں ہم نے دوسروں کی جنگ کو بخوشی خود پر مسلط کیا۔۔۔ جو بچے کچھے چند سال بچ گئے اس میں جمہوریت اور آمریت ’میوزیکل چئیرز‘ کھیلتے رہے۔ کرسی کبھی جمہوریت کے حصے میں آئی تو کبھی، خیر جانے دیجیئے۔۔۔

’میوزیکل چئیرز‘ کے اسی کھیل کے سائے تلے میری آپ کی نسل پروان چڑھی۔ سینٹر فار گلوبل ڈیویلپمنٹ کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی اٹھارہ کروڑ سے زائد جبکہ
46.4٪ آبادی پندرہ سے انتیس برس کے افراد پر مشتمل ہے۔ میڈیا رپورٹس، سرکاری ذرائع اور انتخابی جلوسوں میں نوجوانوں کی شمولیت یہ باور کراتی ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں نوجوانوں کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

انتخابات کے تاریخی موقعے پر ہمارے بھی ایک دوست کو پاکستان جانے کا موقع ملا۔ انہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں جو کبھی ’عروس البلاد‘ کہلاتا تھا، اپنا ووٹ ڈالنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ لہذا ان سے گفتگو میں پہلا سوال ووٹ ڈالنے سے ہی متعلق تھا۔ پوچھا، ’انتخابات کے دنوں میں کراچی میں ہونے کا تجربہ کیسا رہا؟‘ ۔۔۔ جھٹ سے بولے، ’خوفناک‘ ۔۔۔ ہم جو اس جواب کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے، ٹھٹک سے گئے۔ محسوس ہوا کہ ہمارے دوست ابھی تک ملک میں پنپنے والی جمہوریت ’ہضم‘ نہیں کر سکے۔۔۔ یوں تجسس سے مجبور ہو کر ان سے ’کیوں‘ کا سوال پوچھ بیٹھے۔۔۔ موصوف تو جیسے بھرے بیٹھے تھے بولے، ’ایک جیالا ہونے کے ناطے میرا ووٹ ہمیشہ کی طرح تیر کے لیے تھا۔ انتخابات کی صبح میں تیر پر نشان لگا کر آیا اور شام کو پولنگ سٹیشن کے باہر ووٹوں کی جو لاتعداد بوریاں بکھری پڑی تھیں یقیناً ان میں سے ایک آدھا کٹا پھٹا ووٹ میرا بھی ہوگا۔‘

ہم حیران رہ گئے اور ان کی بات کاٹ کر بولے، ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس مرتبہ تو انتخابات انتہائی ’شفاف‘ اور ’غیر جانبدار‘ تھے؟‘‘ ہمارے دوست نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے، ’’پاکستان سے اتنے دور بیٹھے یہاں پر ’سب اچھا ہے‘ ہی لگتا ہے۔ اصل واقعات وہی جانتے ہیں جو انتخابات کے وقت پاکستان میں موجود تھے۔‘‘ ۔۔۔ ’’لیکن میڈیا بھی تو ’سب اچھا ہے‘ دکھائے جا رہا تھا‘‘۔۔۔ ہمارے دوست نے، جو خود بھی میڈیا سے ہی تعلق رکھتے ہیں، اس سوال کے جواب میں صرف ایک اور بھرپور قہقہہ لگانے پر ہی اکتفا کیا۔

پھر گویا ہوئے، ’’آپ کو ’شفاف‘ انتخابات کا ایک اور مزیدار قصہ نہ سناؤں؟۔۔۔ ہماری پھوپھی کے بیٹے انتخابات کے لیے کئی دنوں سے پُرجوش تھے اور کہہ رہے تھے کہ زندگی میں پہلے کبھی یہ حق استعمال نہیں کیا ہے، لیکن اس مرتبہ جی چاہتا ہے کہ ملک کی تقدیر سنوارنے میں اپنی رائے بھی شامل کی جائے۔ گیارہ مئی کو صبح سویرے اٹھے، بیگم کو ناشتہ بنانے سے منع کیا اور کہا کہ آج انتخابات کی خوشی میں ناشتہ باہر سے لایا جائے گا۔ حلوہ پوری تناول کیا، خوشی خوشی تیار ہوئے اور اپنے خاندان کے ہمراہ قریبی پولنگ سٹیشن اس سج دھج سے پہنچے جیسے ووٹ ڈالنے کی بجائے اپنے بیاہ پر جا رہے ہوں۔۔۔

پولنگ پر مامور عملہ محلے دار اور جان پہچان والا تھا۔ عملے میں موجود ایک لڑکے نے ان سے کہا، ’ناصر بھائی، آپ نے یونہی پولنگ سٹیشن آنے کی زحمت کی؟‘ ۔۔۔ ناصر بھائی حیران ہوئے اور بولے، ’بھئی پولنگ سٹیشن تو آنا ہی تھا ووٹ ڈالنے کے لیے۔‘ ان کا دوست دوبارہ گویا ہوا، ’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ آپ نے خواہ مخواہ زحمت کی، آپ کا ووٹ ڈالا جا چکا ہے۔‘ اب کے حیران ہونے کی باری ناصر بھائی کی تھی، بولے، ’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں یہاں آیا نہیں، میں نے ووٹ ڈالا نہیں، تو پھر ووٹ کیسے ڈالا گیا؟‘ ۔۔۔ ناصر بھائی کا محلے دار دھیرے سے مسکرایا اور بولا، ’صرف آپ کا ہی نہیں بلکہ آپ کے خاندان کا بھی ووٹ ڈالا جا چکا ہے۔ آپ مہربانی فرما کر واپس گھر جائیے اور آرام کیجئیے۔ ناحق چھٹی برباد کرتے ہیں۔‘

ناصر بھائی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوئے جا رہا تھا، قدرے اونچی آواز میں بولے، ’مگر میں تو اپنا ووٹ ڈال کر ہی جاؤں گا۔‘ ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ تکرار طُول پکڑتی، اوپر کی منزل سے ایک صاحب کی آواز آئی، ’ناصر بھائی، ناراض مت ہوئیے۔ ادھر آجائیے آپ کو ابھی ووٹ ڈلوا دیتے ہیں۔۔۔‘ ناصر بھائی نے ایک فاتحانہ اور طنزیہ مسکراہٹ اپنے محلے دار کی طرف اچھالی اور سینہ تان کر اوپر چلے گئے جہاں انہیں عزت و احترام سے ایک کرسی پر بٹھایا گیا۔ جس شخص نے ناصر بھائی آواز دے کر بلایا تھا وہ ایک سرکردہ سیاسی جماعت کا رکن تھا اور پولنگ سٹیشن پر انتخابی عمل کی ’نگرانی‘ کر رہا تھا۔

ان صاحب نے بیلٹ پیپرز کا انبار اور ایک مہر ناصر بھائی کے سامنے رکھی اور بولے، ’آپ نے ووٹ ڈالنا ہے نا، بسم اللہ کیجیئے اور جتنے مرضی ووٹ ڈالئے۔۔۔‘ اب حیران ہونے کی باری ناصر بھائی کی تھی جو ہنوز صورتحال سمجھنے کی کوشش میں تھے۔ وہ شخص دوبارہ بولا، ’آپ کو بتا دیا گیا ہے کہ آپ کا ووٹ ڈالا جا چکا ہے لیکن چونکہ آپ خود ووٹ ڈالنے پر بضد ہیں تو اپنا شوق پورا کیجیئے اور جی بھر کر ووٹ ڈالئے۔‘

اس تمام کشمکش میں ناصر بھائی کے دل میں ووٹ ڈالنے کی خواہش دم توڑ چکی تھی اور وہ جلد از جلد وہاں سے نکل جانا چاہتے تھے۔۔۔ لیکن جن صاحب نے انہیں اوپر کی منزل پر بلایا تھا، ناصر بھائی کا تذبذب یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گویا ہوئے، ’صاحب، ووٹ تو اب ڈالنا ہی پڑے گا۔ اب آپ ووٹ ڈالے بغیر واپس نہیں جا سکتے۔ آخر یہ آپ کا قومی فریضہ ہے۔۔۔‘ یوں، ناصر بھائی جو اپنے ایک ووٹ سے ملک کی تقدیر سنوارنا چاہتے تھے، ایک نہیں پورے 100ووٹ ڈال کر ہی پولنگ سٹیشن سے باہر نکل سکے۔‘‘

ہم جو اس پورے قصے کے دوران انگشت بدندان تھے، کمزور سی آواز میں بولے، ’مگر انہیں اوپر کی منزل پر بلانے والے صاحب تھے کون؟‘

ہمارے دوست نے ایک اور بھرپور قہقہہ لگایا اور پوچھا، ’کیا اب یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟‘


مدیحہ انور ۔ فیس بک پیج
مدیحہ انور ۔ ٹوئٹر اکاؤنٹ