اُنہوں نے اِسے ایک سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں یوکرین کی عوام کی جدوجہد کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے جو یورپی یونین میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی سے رہنا اور جمہوری انداز میں اپنا ملک چلانے کی خواہش رکھتے ہیں
واشنگٹن —
افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب مارک گراسمین نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے کرائمیا میں فوجی دستے بھیجنے سے وہاں کشیدگی میں مزید اضافہ ہواہے۔
اُنہوں نے اسے ایک سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں یوکرین کی عوام کی جدوجہد کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے جو یورپی یونین میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی سے رہنا اور جمہوری انداز میں اپنا ملک چلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں پروگرام کے میزبان اور اردو سروس کے سربراہ، فیض رحمٰن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے امریکی وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کشیدگی میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان سے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
کرائمیا کی پارلیمنٹ کی جانب سے ریفرنڈم کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی تبصرہ قبل از وقت ہوگا۔
کرائمیا کی پارلیمنٹ 16 مارچ کو ایک ریفرنڈم کروا رہی ہے، جس میں دو بنیادی سوال پوچھے جائیں گے کہ آیا وہ روس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بدستور یوکرین کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔
یوکرین اور یورپی یونین کے اعلی سفارتی عہدے دار مجوزہ ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دے چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ایک اشتعال انگیز کارروائی ہوگی، جس سے کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب نے افغانستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پوری دنیا کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ افغانستان نے 2003ء کے بعد تعلیم، صحت، معیشت اور میڈیا کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔اور آج کا افغانستان ماضی کے افغانستان سے مختلف ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔
افغانستان میں اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پائی جانے والی تشویش کے باوجود، اس کے کئی مثبت پہلو بھی ہیں۔ اگر یہ انتخابات پرامن اور کامیاب ہوئے، جس کے لیے افغان حکومت کوششیں کر رہی ہے تو یہ افغانستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہوگا کہ وہاں جمہوری انداز میں اقتدار ایک راہنما سے دوسرے راہنما کو منتقل ہوگا۔
طالبان کے ساتھ پاکستانی حکومت کے مذاکرات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امریکی سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، ملک کی سیکیورٹی اور سلامتی کے لیے مسلسل ایک خطرہ بنتی جارہی ہے۔
اُن کا کہناتھا کہ پاکستان ان مذاکرات کے ذریعے تشدد میں کمی لانا چاہتا ہے۔ اور امریکی حکومت کا موٴقف یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ مختلف شعبوں میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ خاص طور پر اسے تعلیم اور تجارت میں وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی؛ جس سے نہ صرف ملک میں خوش حالی اور استحکام آئے گا، بلکہ اس سے مسائل کے حل میں مدد بھی ملے گی۔
مارک گراسمین امریکی محکمہٴخارجہ میں اہم خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ ترکی میں امریکہ کے سفیر، اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار یورپیئن افئرز اور سیاسی امور کے انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ رہ چکے ہیں۔ رچرڈ ہالبروک کے انتقالکے بعد، وہ افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے اسے ایک سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں یوکرین کی عوام کی جدوجہد کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے جو یورپی یونین میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی سے رہنا اور جمہوری انداز میں اپنا ملک چلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں پروگرام کے میزبان اور اردو سروس کے سربراہ، فیض رحمٰن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے امریکی وزیر خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کشیدگی میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان سے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
کرائمیا کی پارلیمنٹ کی جانب سے ریفرنڈم کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی تبصرہ قبل از وقت ہوگا۔
کرائمیا کی پارلیمنٹ 16 مارچ کو ایک ریفرنڈم کروا رہی ہے، جس میں دو بنیادی سوال پوچھے جائیں گے کہ آیا وہ روس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بدستور یوکرین کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔
یوکرین اور یورپی یونین کے اعلی سفارتی عہدے دار مجوزہ ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دے چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ایک اشتعال انگیز کارروائی ہوگی، جس سے کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب نے افغانستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پوری دنیا کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ افغانستان نے 2003ء کے بعد تعلیم، صحت، معیشت اور میڈیا کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔اور آج کا افغانستان ماضی کے افغانستان سے مختلف ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔
افغانستان میں اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پائی جانے والی تشویش کے باوجود، اس کے کئی مثبت پہلو بھی ہیں۔ اگر یہ انتخابات پرامن اور کامیاب ہوئے، جس کے لیے افغان حکومت کوششیں کر رہی ہے تو یہ افغانستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہوگا کہ وہاں جمہوری انداز میں اقتدار ایک راہنما سے دوسرے راہنما کو منتقل ہوگا۔
طالبان کے ساتھ پاکستانی حکومت کے مذاکرات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امریکی سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، ملک کی سیکیورٹی اور سلامتی کے لیے مسلسل ایک خطرہ بنتی جارہی ہے۔
اُن کا کہناتھا کہ پاکستان ان مذاکرات کے ذریعے تشدد میں کمی لانا چاہتا ہے۔ اور امریکی حکومت کا موٴقف یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ مختلف شعبوں میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ خاص طور پر اسے تعلیم اور تجارت میں وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی؛ جس سے نہ صرف ملک میں خوش حالی اور استحکام آئے گا، بلکہ اس سے مسائل کے حل میں مدد بھی ملے گی۔
مارک گراسمین امریکی محکمہٴخارجہ میں اہم خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ ترکی میں امریکہ کے سفیر، اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار یورپیئن افئرز اور سیاسی امور کے انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ رہ چکے ہیں۔ رچرڈ ہالبروک کے انتقالکے بعد، وہ افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔