پاکستانی نوجوانوں کی ترقی کے لیے سنجیدہ ہیں: امریکی عہدیدار

Your browser doesn’t support HTML5

رشاد حسین کا شمار اوباما انتظامیہ کے ان نوجوان اعلیٰ عہدے داروں میں ہوتا ہے جو ملک کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے لیے امریکی سفیر رشاد حسین کا کہناہے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ پاکستان کے ذہین، اہل اور ہنر مند نوجوانوں کو آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور اپنی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے مواقع حاصل ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی انٹرنیٹ کے شعبے میں آنے والی ترقی کے ثمرات سمیٹ سکیں۔

ان کے بقول ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی نئی نسل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا مقام بنائے اور اپنے وطن میں خوش حالی لائے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے پاس جو وسائل دستیاب ہیں ، انہیں بروئے کار لا کران خواہشوں اور خوابوں کو ایک خوبصورت تعبیر اور روشن مستقبل دیا جاسکے، اور وہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔

سفیر رشاد حسین نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ کے ٹی وی شو کیفے ڈی سی میں اردو سروس کے سربراہ فیض رحمن کے ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود شکوک و شہبات اور اختلافات کی بنیادی وجہ اس ملک میں معیاری تعلیمی ذرائع تک رسائی کی کمی ہے اور جب میں تعلیم کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ مذہی تعلیم اور جدید علوم وفنوں کی تعلیم ، دونوں کو ساتھ لے کر چلاجائے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تعلیم کی کمی اور فقدان کے نتیجے میں جو خلاء پیدا ہوتا ہے انتہاپسند اور شدت پسند قوتیں اسے آکر بھر دیتی ہیں اور وہ لوگوں کو اپنے مخصوص ایجنڈے پر لے جانے کی کوشش کرتی ہیں جس سے خرابیاں اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ماضی کے مسلمانوں نے سائنسی علوم وفنوں میں شاندار پیش رفت کی اور بے شمار ایجادات اور اختراعات متعارف کرائیں اور آج اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے مذہب کے نام پر سائنس اور تعلم و تحقیق کے دروازے نوجوان پر بند کررہے ہیں۔

رشاد حسین نے بتایا کہ پاکستان اوراسلامی دنیا کے ملکوں کے دوروں، اور وہاں کے علماء اور مذہبی راہنماؤں سے ملاقوں کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امریکہ اور اسلامی دنیا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اور دوری کا بنیادی سبب زیادہ تر امریکہ کے متعلق طویل عرصے سے موجود غلط معلومات، غلط فہمیاں اور اعتماد کا فقدان ہے، جنہیں اس سے پہلے دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

ان کا کہناتھا کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و زیادتی ہورہی ہو، اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ دہشت گردی کا راستہ روکنا چاہیے کیونکہ ہمارا مذہب کسی بھی صورت حال میں، چاہے وہ انتقام اور بدلہ لینا ہی کیوں نہ ہو، تشدد اور دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔

انہوں نے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس نے ایک معصوم انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک معصوم انسان کی جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مذہب یا فرقے یا رنگ ونسل کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہورہی ہو تو ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور اس کا ساتھ دینا چاہیے جو سچائی پر ہو۔ بعض اسلامی ملکوں میں اقلیتوں کو زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اور انہیں انصاف نہیں مل رہا۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اقلیتوں کو تحفظ دیں اور انہیں انصاف اور زندگی گزارنے کے مساوی مواقع مہیا کریں۔

اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے ارکان کی تعداد کے لحاظ سے یہ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی تنظیم ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض اسلامی ملکوں کی اس شکایت کے باوجود کہ او آئی سی نے مسلم دنیا کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لیےکچھ زیادہ نہیں کیا، یہ ادارہ مسلمانوں کی آواز مؤثر انداز میں بلند کررہاہے۔ تنظیم کے سابق سیکرٹری جنرل نے مختلف شعبوں میں تعاون و ترقی کے لیے ایک دس سالہ پروگرام شروع کیا تھا، اور اقوام متحدہ اور جنیوا میں او آئی سی کے دفاتر قائم کیے گئے جس سے دیگر عالمی اداروں کے ساتھ او آئی سی کے رابطے بہتر ہوئے۔

رشاد حسین کا کہنا تھا کہ امریکہ بہت سے شعبوں میں او آئی سی کے ساتھ مل کرکام کررہاہے جن میں صحت ، تعلیم ، سائنس او رٹیکنالوجی اور چھوٹے کاروباروں کے فروغ و توسیع میں مدد شامل ہے۔ ہم کئی اہم سیاسی مسائل پر بھی او آئی سی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، جن میں مسلم دنیا میں اقلیتوں کا تحفظ اور تشدد کی بیخ کنی کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

رشاد حسین کا کہنا تھا کہ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں، وہاں کے لوگوں کی باتیں بڑی توجہ سے سنتا ہوں اور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ ان کی برہمی اور اختلاف کا اصل سبب کیا ہے۔

انہوں نے اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں میں نے نوجوان طالب علموں سے کہا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے اختلافات اورمسائل کی نشاندہی کریں۔ لیکن زیادہ تر اختلافات کا بنیادی سبب معلومات کی کمی ہے۔

پاکستان کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لیے ان کے دل میں بڑی قدر و منزلت ہے۔ وہ ایک خوبصورت ملک ہے۔ وہ ذہین اور باصلاحیت لوگوں کی سرزمین ہے۔ وہاں کی ثقافت اور معاشرت بہت رنگارنگ اور اپنے اندر گہری جاذبیت لیے ہوئے ہے۔ وہاں کا ادب اور شاعری بہت جاندار اور فکر انگیز ہے۔ میں خاص طورپر علامہ اقبال کی شاعری کا بہت معترف ہوں۔

رشاد حسین کا کہنا تھا کہ میرے پاکستان کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینا تھا جس کی بنیاد دونوں ملکوں کی اقدار پر قائم ہو۔ ہم وہاں معیاری تعلیم کو فروغ دینا چاہتے ہیں جس تک لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی رسائی ہو۔ ہم صحت اور ترقیاتی شعبوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ اس ملک کے ذہین، اہل اور ہنر مند نوجوانوں کو آگے بڑھنے ، ترقی کرنے اور اپنی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے مواقع حاصل ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی انٹرنیٹ کے شعبے میں آنے والی ترقی کے ثمرات سمیٹ سکیں ۔ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی نئی نسل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا مقام بنائے اور اپنے وطن میں خوش حالی لائے اور ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے پاس جو وسائل دستیاب ہیں، انہیں بروئے کار لاکر ان خواہشوں اور خوابوں کو ایک خوبصورت تعبیر اور روشن مستقبل دیا جاسکے۔

سفیر رشاد حسین نے کہا کہ او آئی سی کے لیے امریکی نمائندے کے طور پر پاکستانی نوجوانوں کو تعلیم و ترقی کے بہتر مواقع کی فراہمی کے سلسلے میں میری ملاقاتیں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت اعلیٰ سرکاری عہدے داروں سے بھی ہوچکی ہیں۔ ہم ا ن مقاصد کے حصول کے لیے نوجوانوں، سرکاری اور غیر سرکاری عہدے داروں اور مذہبی راہنماؤں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

رشاد حسین کا شمار اوباما انتظامیہ کے ان نوجوان اعلیٰ عہدے داروں میں ہوتا ہے جو ملک کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اکتیس سالہ راشد حسین ایک ممتاز امریکی یونیورسٹی ہاروڈ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قران بھی ہیں اور اسلامی علوم وفنوں پر دسترس رکھتے ہیں۔

امریکہ کی ایک مغربی ریاستWyoming کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے رشاد حسین نے اپنی عملی زندگی کا آغاز وہائٹ ہاؤس میں ڈپٹی اٹارنی کے طور پر کیا۔

سفیر رشاد حسین کا کہنا ہے کہ یہ عہدہ جارج بش کے دور میں تخلیق کیا گیا جس کا مقصد اسلامی دنیا سے رابطے بڑھانا، ان کے مسائل کو سمجھنا اور امریکہ اور اسلامی دنیا کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا تھا اور اس سلسلے میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب دینا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں آباد مسلمانوں کی تعداد 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں دو ہزار سے زیادہ مساجد ہیں اور بہت سے اسلامی علوم کی تعلیم و ترویج کے لیے بہت سے اسکول کام کررہے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں ایک نوجوان کو اسلامی دنیا کے ساتھ امریکی سفارت کاری کی اہم ذمہ داری کیوں سونپی گئی ہے، رشاد حسین کا کہنا تھا کہ صدر اوباما نوجوانوں کو آگے لانا اور انہیں اہم شعبوں میں اپنی صلاحتیں آزمانے کے مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ میں بہت سے نوجوان اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مسلم دنیا کے ساتھ سفارت کاری کے لیے انہیں سفیر مقرر کرنے کی ایک وجہ اسلامی ملکوں میں آبادی کا تناسب ہے۔ وہاں آبادی کا غالب حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور چونکہ میرا کام عہدے داروں کی نسبت عام افراد سے رابطے بڑھانا ہے تو یقینی طور پر نوجوان ہونے کے ناطے نئی نسل میری جانب زیادہ متوجہ ہوسکتی اور اپنے ایک ہم عمر کے ساتھ بات کرنے میں انہیں زیادہ سہولت اور آسانی ہو سکتی ہے۔

سفیر رشاد حسین پاکستان سمیت کئی اسلامی ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں وہاں امریکہ کے متعلق پائی جانے والی عمومی رائے کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں، ان کا کہناتھا کہ میرا خیال ہے کہ وہاں امریکہ کے متعلق تصور کے ساتھ کئی غلط فہمیاں منسلک ہیں۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں لوگوں سے اس بارے میں میری گفتگو ہوتی رہی ہے۔ میں نے انہیں امریکہ میں اسلامی ملکوں کے بارے میں پائے جانے والے خدشات سے آگاہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ مسلم دنیا سے تعلقات کے سلسلے میں امریکہ کئی حوالوں سے درست سمت میں آگے بڑھ رہاہے۔ عراق میں جنگ کا خاتمہ ہوچکاہے اور اس ملک کا انتظام انصرام وہاں کی قیادت کو سونپ کر امریکہ وہاں سے نکل چکاہے۔ اب افغانستان میں بھی یہی ہونے جارہاہے۔ ہم مشرق وسطیٰ کے مسائل کو حل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

رشاد حسین کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسی سے اختلاف کے باوجود اسلامی دنیا کے ممالک بالخصوص پاکستان میں امریکہ کے لیے ایک خاص احترام پایا جاتا ہے۔ نوجوان امریکی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکہ سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ صدر اوباما کو احترام کی نظر سے دیکھاجاتا ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کے اقدامات کو سراہا جاتا ہے۔