دو برس قبل جب بھارت کی لوک سبھا میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے شہریت قانون میں ترمیم کا متنازع بل پیش کیا تو اس پر حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس سمیت اسمبلی کے دیگر ارکان نے احتجاج کیا تھا۔
حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اس اقدام پر بل کی مخالفت کرنے والوں نے اس بنیاد پر تنقید کی کہ یہ قانون بھارت میں مذہبی بنیادیوں پر تقسیم کا باعث بنے گا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے کانگریس کو ہندوستان کی تقیسم کا ذمے دار قرار دیا تھا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ برِ صغیر کی تقسیم کی تاریخ کو حال کے کسی فیصلے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔ بھارت اور پاکستان کی سیاست اور سماج میں کسی نہ کسی انداز سے بحث میں تقسیم کا حوالہ آہی جاتا ہے۔
تاریخ داں مئی 1946 میں برطانیہ کے پیش کیے گئے کابینہ مشن پلان کو اس بحث کا اہم حوالہ سمجھتے ہیں۔
اس منصوبے کو ہندوستان کی تقسیم روکنے کی آخری کوشش قرار دیا جاتا ہے اور کیوں کہ مسلم لیگ کے قائد اور پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی اس منصوبے کو تسلیم کر لیا تھا۔
اس لیے کابینہ مشن منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باوجود یہ مؤرخین کے لیے ایک سوال ضرور چھوڑ گیا کہ کیا تاریخ کے اس موڑ پر ہندوستان کی تقسیم روکی جاسکتی تھی؟ اور کیا جناح واقعی اس تقسیم کےحامی تھی یا اس وقت کے سیاسی حالات کے باعث خطے میں دو علیحدہ ریاستوں نے جنم لیا۔
مؤرخین کے مطابق کابینہ مشن پلان کا مقصد ہندوستان کی تقسیم کے بغیر یہاں بسنے والی مختلف قومی و مذہبی شناختوں کی نمائندہ جماعتوں کے درمیان شراکتِ اقتدار کا قابلِ قبول فارمولا طے کرنا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جناح کا سیاسی کردار
ڈاکٹر سید جعفر احمد طویل عرصے تک جامعۂ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر رہے ہیں اور اب وہ ’انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔
ان کے نزدیک برِصغیر کی سیاست اور مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی سے متعلق محمد علی جناح کا کردار کئی ارتقائی مراحل سے گزرا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 1913 میں جب جناح کانگریس سے مسلم لیگ میں آئے تھے تو ان کی سیاسی کوششوں کا بنیادی محور یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان جو اقلیت میں ہیں ان کے لیے ہندوستان کے مجموعی سیاسی نظام میں ایک مناسب اور موزوں نمائندگی حاصل کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کا خیال تھا کہ ہندوستان کو آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرح ڈومینین ہونا چاہیے اور اسی مطالبے پر بات کی جا رہی تھی۔ یعنی داخلی امور پر ہندوستان کو مکمل اختیار ہو لیکن یہ سلطنتِ برطانیہ ہی کا ایک حصہ رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
برطانیہ کے بنائے گئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں بھی ان مطالبات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسی ایکٹ کے تحت 1936-37 میں ہندوستان کے 11 صوبوں میں انتخابات ہوئے۔
ان انتخابات میں کانگریس نے آٹھ صوبوں میں کامیابی حاصل کی جب کہ مسلم لیگ سوائے بنگال اور یوپی کے کسی صوبے میں قابلِ ذکر نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھی۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ 1937 کے صوبائی انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد کانگریس نے خود کو ہندوستان کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
لیکن 1939 میں جب وائسرائے ہند نے مقامی قیادت سے مشاورت کے بغیر دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان کے شامل ہونے کا اعلان کیا تو کانگریس نے صوبائی حکومتوں سے استعفے دے دیے اور ایک بار پھر ہندوستان کے آئینی بندوبست کا سوال تنازعات کا شکار ہوگیا۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے برطانیہ سے مختلف اوقات میں آئینی مذاکرات ہوتے رہے۔ کرپس مشن آیا اور اس طرح کی دیگر کوششیں جاری رہیں۔
جب 1945 میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا تو برطانیہ نے ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی پر تیزی سے کام شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں لارڈ ویول نے شملہ کانفرنس بھی بلائی جس میں کانگریس اور مسلم لیگ نمائندگی کے تناسب کے کسی فارمولے پر متفق نہیں ہوسکے۔
مؤرخین کے مطابق شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ نمائندگی کے تناسب کا فیصلہ اب انتخابات ہی سے ممکن ہوگا۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے اس وقت تک فیصلہ کرلیا تھا کہ ہندوستان میں جہاں مسلم اور غیر مسلم آبادی کی نمائندگی کے مسائل کی وجہ سے کوئی آئینی حل نہیں ہو پا رہا تھا، اب یہی راستہ رہ گیا ہے کہ ہندوستانیوں کی دستور ساز اسمبلی وجود میں آجائے جو خود اپنا آئین بنائے۔
اس کے لیے 1945 کے موسم سرما میں انتخابات ہوئے۔ اس میں پہلے مرکزی اور پھر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔
یہ انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوئے تھے۔ یعنی اس میں مسلمان اکثریت اور عام انتخابی حلقے الگ الگ تھے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ ان انتخابات نے ہندوستان کی تقسیم کو نمایاں کیا کیوں کہ مسلم حلقوں میں 87 فی صد سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ کو پڑا جب کہ عام نشستوں پر 91 فی صد ووٹ کانگریس کو ملا۔ اس نتیجے کے بعد اسمبلی کا اجلاس بڑا مشکل نظر آ رہا تھا کیوں کہ سوال یہ تھا کہ مسلم لیگ اتنی اکثریت کے ساتھ آگئی ہے تو نمائندگی کے تناسب کا سوال تو وہیں کا وہیں رہے گا۔
یہ بحران حل کرنے کے لیے لارڈ ویول برطانیہ گئے۔ برطانیہ میں انتخابات کے بعد لیبر پارٹی اقتدار میں آ چکی تھی جو ہندوستان میں شراکتِ اقتدار کے لیے جلد کسی فیصلے کی خواہاں تھی۔
وائسرائے ہند کی درخواست پر برطانوی وزیر اعظم ایٹلی نے مارچ 1946 میں اپنی کابینہ کے تین وزرا پیتھک لارنس، اسٹیفرڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر کو ہندوستان بھیجا۔ وفد کے ارکان کا تعلق برطانوی کابینہ سے ہونے کی وجہ سے اسے کابینہ مشن کہا گیا۔
ڈاکٹر جعفر احمد بتاتے ہیں کہ برطانوی کابینہ کے ان اراکین کے ہندوستان آنے کے تین مقاصد تھے۔
- اسمبلی کے ارکان سے مشاورت کرنا۔
- آئین بنایا کس طرح جائے۔
- عبوری حکومت یا انتظامی بندوبست ہو تو نوعیت کیا ہو گی۔
کابینہ مشن منصوبہ تھا کیا؟
کابینہ مشن دہلی آیا اور اس نے مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت سے مشاورت کی۔
ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق اس مشاورتی عمل میں کئی اختلافات سامنے آئے۔ لیکن بالآخر کیبنٹ مشن کے ارکان ایک فارمولے پر متفق ہوئے اور مئی 1946 میں اس نے اپنا منصوبہ مشتہر کر دیا۔
معروف مصنف اور سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کے مطابق کیبنٹ مشن نے اس وقت کے جنوبی ایشیا کے تین زونز بنانے کی تجویز دی۔ ایک زون جس میں ہندو اکثریتی صوبے یوپی، بہار، سی پی وغیرہ تھے۔ دوسرا زون یا گروپ ایسا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت والے صوبے پنجاب، سندھ، سرحد جو آج کا خیبر پختونخوا ہے، کو شامل کیا گیا۔ اسی طرح تیسرا زون یا گروپ ایسے صوبوں کا تھا جس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی لیکن انہیں اکثریت حاصل نہیں تھی اور اس گروپ میں بنگال اور آسام کے صوبے شامل تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابینہ مشن میں صوبوں کے یہ گروپس ایک مرکز یا کنفیڈریشن کے تحت رکھنے کی تجویز تھی جس میں مرکز کے پاس صرف دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے شعبے تھے اور ان کے لیے وسائل حاصل کرنے کا اختیار بھی مرکزی حکومت کو دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ کنفیڈریشن مرکزی حکومت کے ایسے انتظام کو کہتے ہیں جس میں شامل اکائیوں یا ریاستوں کو اپنی مرضی کے مطابق اس انتظام میں شامل ہونے کے بعد الگ ہونے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
اسی لیے کابینہ مشن منصوبے کے تحت صوبوں کو اپنے اپنے علاقے کے لیے آئین بنانے کا اختیار دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان صوبوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ 10 سال کے بعد وہ اس کنفیڈریشن میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ کابینہ مشن اعلان کر چکا تھا کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے نہیں آیا بلکہ اس نے ایک کنفیڈریشن کا نقشہ پیش کیا تھا۔
مسلم لیگ کی قیادت محمد علی جناح کر رہے تھے اور کانگریس کی صدارت جواہر لعل نہرو کے پاس تھی۔ کابینہ مشن سامنے آنے کے بعد محمد علی جناح نے اسے تسلیم کر لیا اور کانگریس نے بھی ابتدائی طور پر اس پر رضا مندی ظاہر کی۔
جناح کیا چاہتے تھے؟
محمد علی جناح کے کابینہ مشن کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر مؤرخین میں یہ بحث ہے کہ وہ واقعی ہندوستان کی تقسیم چاہتے تھے یا بدلتے حالات نے اس کی راہ ہموار کی۔ یا اس وقت تک ان کے ذہن میں پاکستان کا کوئی واضح نقشہ تھا بھی یا نہیں۔
محمد علی جناح کے اس فیصلے کے اسباب کے بارے میں ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سامنے آئی کہ مستقبل کے کسی بھی آئینی بندوبست میں بڑا اہم نکتہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کو جو ہندوستان کی آبادی میں ایک اقلیت ہیں مناسب جگہ کس طرح دی جائے۔ جناح مسلم اقلیت کے حقوق کے لیے قانونی نکات ڈھونڈتے رہے اور راستے تلاش کرتے رہے۔
سن 1927 میں محمد علی جناح نے سندھ ، بلوچستان اور سرحد کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا کیوں کہ اس وقت تک صرف پنجاب اور بنگال دو مسلم اکثریتی صوبے تھے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق جناح صاحب کا مؤقف تھا کہ اگر یہ مزید تین صوبے بن جاتے ہیں تو ہندوستان کے وفاق میں مسلمانوں کی حیثیت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی لیکن یہ مطالبات نہیں مانے جا رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ 1930 کے عشرے سے جناح نے یہ کہنا شروع کیا کہ مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور 1940 کی قرارداد میں ان کا پورا فلسفہ ہی یہی ہے۔ البتہ ابھی بھی وہ ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں کر رہے تھے۔ کیوں کہ انہیں علم تھا کہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں ایک ملک میں ایک سے زیادہ قومیں رہتی ہیں۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ جناح 1940 میں ہندوستان میں مسلمانوں کے صوبوں کی گروپنگ اس خیال سے پیش کر رہے تھے کہ ہندوستان کے مجموعی آئینی ڈھانچے میں ایسے خطے مل جائیں جہاں وہ اکثریت میں ہوں گے اور اپنی مرضی کے مطابق اپنا نظام چلا رہے ہوں گے۔ اس وقت ان کی دلیل یہ تھی کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔
ان کے مطابق 23 مارچ 1940 کو قراردادِ لاہور منظور ہونے سے قبل انہوں نے 22 مارچ کو اس کمیٹی کے سامنے جو تقریر کی اس میں بھی حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کرنے کی بات کی تھی۔
ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ 1940 کی قرار داد میں پاکستان کا ذکر نہیں تھا۔ اگر ہم اسے آج کی زبان میں بیان کریں تو وہ ’کنفیڈریشن‘ یا ایک ’فیڈریشن ود ان دی فیڈریشن‘ کا نقشہ تھا جسے ہم ’زونل فیڈریشن‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
’پاکستان کا لفظ میڈیا سے آیا‘
ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق پاکستان کا لفظ میڈیا سے آیا اور جب آیا تو جناح کے خیال میں یہ موزوں تھا اور انہوں نے اسے استعمال بھی کیا۔ لیکن اس کے ساتھ محمد علی جناح ’مسلم انڈیا‘ کی ایک اور اصطلاح بھی استعمال کرتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ صرف پاکستان کا لفظ استعمال کر رہے ہوتے تو ان سے پوچھا جاتا کہ اس سے مراد کون سا خطہ ہے۔ اگر وہ اس خطے کو بیان کرنے لگ جاتے تو یوپی، بہار، بمبئی جیسے مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمان یہ سوال پوچھتے کہ پھر ہم کہاں گئے۔ اس لیے جناح پورے ہندوستان میں پھیلے مسلمانوں کی بات کرتے تھے۔
لیکن بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ محمد علی جناح نے کابینہ مشن اس لیے تسلیم کیا تھا کہ انہیں اس کی صورت میں پاکستان کی تشکیل کے امکانات نظر آ رہے تھے۔
جاوید جبار بھی اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیبنٹ مشن کو تسلیم کرنا ایک مجموعی حکمتِ عملی کا حصہ تھا جسے کوئی سمجھوتہ یا اپنے مؤقف سے دست برداری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مقصد تھا پاکستان حاصل کریں، فوری طور پر یا قدم بہ قدم۔
’اگست 1947 سے پہلے ایک ہندوستان نہیں تھا‘
جاوید جبار کہتے ہیں کہ اگست 1947 سے پہلے متحدہ ہندوستان یا ایک ہندوستان کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس وقت کا ہندوستان 560 سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستوں اور راجواڑوں کا مجموعہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہندوستان کی تقسیم سے گریز کرنے کے لیے جناح نے کابینہ مشن کو تسلیم کر لیا تھا۔ ان کے بقول اس وقت ہم ایک بالکل نئے مرحلے کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں دو بالکل نئی ریاستیں جنم لینے والی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ حقیقت نہیں ہے کہ جناح تقسیم کی مخالفت کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پنجاب اور بنگال تقسیم نہ ہوں کیوں کہ وہ مذہب کی بنیاد پر ایسی تقسیم کے قائل نہیں تھے جو تشدد کے زیرِ اثر کی گئی ہو۔ وہ اس طرح کے تنگ نظر مذہبی نظریات کی شروع سے مخالفت کرتے آئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جاوید جبار کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ مئی 1947 میں آزادی سے چار ماہ قبل محمد علی جناح نے وزیرِ اعظم برطانیہ کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ آپ بنگال اور پنجاب کو تقسیم کرنے کا منصوبہ تسلیم مت کریں۔ کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ غیر مسلم بھی پاکستان کا حصہ بنیں۔ پنجاب میں بھی اور بنگال میں بھی۔
ان کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح اس قسم کی منفی تقسیم کے خلاف تھے۔ لیکن مثبت تقسیم جو پُر امن ہو اور جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کی عزت بھی برقرار رہے، وہ اس کی حمایت کرتے تھے۔
کیبنٹ مشن ناکام کیوں ہوا؟
ڈاکٹر جعفر احمد کے بقول محمد علی جناح نے آخر تک کوشش کی کہ اس طرح کا پیکج بن جائے جس میں ہندوستان کی تقسیم بھی نہ ہو اور مسلمانوں کو اتنی خود مختاری مل جائے کہ ان کو اپنی آزادی کا بھی احساس ہو اور وہ جو کچھ وہاں کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے بھی آزاد ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ کانگریس میں ابتداً کیبنٹ مشن کو تسلیم کرنے پر اتفاقِ رائے ہو گیا تھا۔ لیکن ایک بڑی مضبوط لابی کانگریس میں یہ سمجھتی تھی کہ اگر ہم نے مسلم اکثریتی صوبوں کو ایک کنفیڈرل بندوبست میں ساتھ رکھنے کے لیے اتنی بھاری قیمت ادا کی تو 10 سال بعد سبھی صوبے اپنے مقدر کا فیصلہ کر رہے ہوں گے۔ اس طرح ہندوستان کو متحد رکھنے کے خواب بعد میں بکھر جائیں گے۔
ان کے بقول "اس لیے کانگریس نے یہ طے کیا کہ مضبوط مرکز کے تحت ہندوستان کے باقی ماندہ علاقوں کو یکجا رکھنے کی یہ قیمت ادا کر دینی چاہیے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو نکل جانے دیا جائے۔"
اس کے علاوہ جواہر لعل نہرو نے بھی ایسے اشارے دیے تھے کہ وہ 1945 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قانون ساز اسمبلی کو ایک خود مختار اسمبلی میں بدل دیں گے۔
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ کابینہ مشن کی تجاویز تسلیم کرنے کے بعد خود مختار اسمبلی کو اس پلان میں تبدیلی کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ اس خدشے کے باعث مسلم لیگ اور محمد علی جناح بھی کابینہ مشن کی حمایت سے دست بردار ہوگئے۔
اگر جناح کی بات مان لی جاتی۔ ۔ ۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ ہندوستان میں یہ بحث ہے کہ اگر 1927 میں جناح کی بات مان لی جاتی یا 1937 کے انتخابات کے بعد یوپی میں مخلوط حکومت بن جاتی اور اسی طرح کانگریس کابینہ مشن کو تسلیم کر لیتی تو ہندوستان کی تقسیم نہ ہوتی۔
جاوید جبار کہتے ہیں کہ کانگریس بہت بٹی ہوئی تھی اور کیبنٹ مشن پلان کے بارے میں کانگریس میں گاندھی، نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور مولانا ابوالکلام آزاد - چاروں بڑے رہنماؤں اور ان کے حامیوں کا الگ الگ مؤقف تھا۔
لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر محمد علی جناح کو قائد تسلیم کر چکی تھی اور اسی لیے کیبنٹ مشن پلان کے معاملے پر مسلم لیگ میں کوئی قابلِ ذکر اختلاف نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی لکھا کہ اگر وہ نہرو کی جگہ ہوتے تو کابینہ مشن کو تسلیم کر لیتے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کانگریس میں رائے تقسیم ہونے کی ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل کو ہندو کاروباری طبقے نے اس بات پر قائل کیا تھا کہ معاشی اعتبار سے کابینہ مشن کوئی عمدہ تجویز نہیں ہے کیوں کہ صوبوں کی گروپنگ میں انہیں حاصل ہونے والے اختیارات کی وجہ سے معاشی پالیسیاں مختلف ہوں گی جس سے کاروباری مفادات کو زک پہنچنے کا خدشہ تھا۔
ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ اس کاروباری طبقے کے نزدیک ہندوستان کی معیشت کے لیے ایک مضبوط مرکز کی ضرورت تھی جب کہ نہرو کانگریس میں اس گروہ کی نمائندگی کرتے تھے جنھیں ’فیبیئن سوشلسٹ‘ کہا جاتا تھا۔
یہ اصطلاح بھی برطانیہ سے آئی تھی۔ وہاں قائم ’دی فیبیئن سوسائٹی‘ انقلاب کے بجائے سوشلسٹ اصولوں کی بنیاد پر بتدریج جمہوری اصلاحات لانے کی قائل تھی۔ نہرو اور ان کے ساتھیوں کو اس فکری قربت کی وجہ فیبیئن سوشلسٹ کہا جاتا تھا۔
ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق نہرو کو ولبھ بھائی پٹیل نے کیبنٹ مشن کی حمایت سے دست برداری پر قائل کرلیا۔
جب کہ بعض مؤرخین کے نزدیک نہرو نے کیبنٹ مشن کے بارے میں سخت مؤقف اس لیے بھی اختیار کیا تھا کہ ان کے خیال میں وہ برطانیہ میں آنے والی لیبر پارٹی کی حکومت سے فکری موافقت کی وجہ سے اپنے مؤقف کی تائید حاصل کرنے کی توقع رکھتے تھے۔
ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل اور نہرو نے بعد میں گاندھی کو اس بات پر قائل کیا کہ کیبنٹ مشن کی مخالفت کی جائے۔ اس پر گاندھی نے کہا کہ جب میرا دایاں اور بایاں بازو یہ تجویز تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں اس کی حمایت کیسے کر سکتا ہوں۔
ڈاکٹر جعفر کہتے ہیں کہ بعض تاریخی حوالوں میں یہ بھی ہے کہ گاندھی نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر میں پاکستان جا کر رہوں گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی معروف مؤرخ اجیت جاوید اور دیگر تاریخ دان بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کی ذمے داری گاندھی، نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے تاریخ کے بارے میں بھارت میں مختلف بیانیے سامنے آتے رہے ہیں لیکن پاکستان میں مؤرخین کم ہی ریاستی مؤقف سے انحراف کرسکے ہیں۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ اس کا سبب تاریخ دان خود نہیں بلکہ یہاں ایسا ماحول نہیں بننے دیا گیا جو علمی بنیادوں پر اختلافِ رائے کے لیے درکار ہوتا ہے۔